جون گزر رہا ہے پُورا ملک گرم ہواؤں کی لپیٹ میں ہے۔ سیاسی ماحول بھی گرم ہے اور اپوزیشن جماعتیں کوشش کر رہی ہیں کہ کسی ایک نکتے پر متفق ہوکر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی جائے۔
رائے ونڈ میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کی ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان سے شبہاز شریف اور بلاول کی اوپر تلے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن ابھی تک کسی ایشو پر اتفاق نہیں کر سکی اور یہ بھی طے نہیں ہو سکا کہ اگر تحریک چلائی جائے تو اس کی قیادت کون کرے گا؟
اپوزیشن جماعتیں اپنے اندر نوابزادہ نصراللہ خان تلاش کر رہی ہیں جو اپوزیشن کو لیڈ کر سکے۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے بھی ساری زندگی اپوزیشن کرتے گزار دی۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، پوری زندگی لاہور کے چھوٹے سے گھر میں گزار دی۔
بڑے بڑے حکمرانوں نے اس چھوٹے کرائے کے گھر کی یاترا کی۔ نصر اللہ خان اکثریت کے خلاف اتحاد بنانے کا فن جانتے تھے۔ ان کی زندگی کے بعد آج تک کوئی سیاسی اتحاد نہیں بن سکا۔ ان کی زندگی کا آخری اتحاد بھی انتہائی شاندار تھا، جس میں انہوں نے دو، دو دفعہ وزیراعظم رہنے والے اور ایک دوسرے کے شدید مخالفین کو مشرف آمریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر دیا۔
ادھر صورتحال یکسر مختلف ہے۔ کہاں تین کمروں میں رہنے والا نوابزادہ نصراللہ اور کہاں بلاول ہاؤس کراچی اور رائے ونڈ محلات کے مکین؟ فرصت ملے تو تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑ کر مطالعہ کریں دنیا میں کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک عوام اس میں شامل نہ ہوں۔
مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی، بےروزگاری کا اژدھا پھن پھیلائے بیٹھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن اس پر اتفاق کرے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ اپوزیشن کا ہر لیڈر عوام کے دکھوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے دکھ لے کر باہر نکلنا چاہتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دُکھ مشترکہ ہیں کیونکہ ان دونوں جماعتوں کی صف اول کی قیادت جیلوں میں ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس آگ میں جھلس رہے ہیں کہ طویل مدت کے بعد وہ پارلیمنٹ اور حکومت سے باہر ہوئے۔
اپوزیشن کے ہر لیڈر کا مسئلہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہے۔ اس لیے اپوزیشن اس مخمصے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایسا ایشو تلاش کیا جائے جس پر سب متفق ہو سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قومی اسمبلی میں نون لیگ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے مگر اسے اپوزيشن کرنے کا تجربہ نہیں۔ نون لیگ اپنے قیام سے لے کر ہمیشہ کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہی۔ یہ ہمیشہ ڈرائنگ روم کی سیاست پر یقین کرنے والی سیاسی جماعت ہے ان کے پاس وہ کارکن نہیں جو سڑکوں پر کوڑے کھائیں، لیگی قیادت نے بھی کبھی گرمی سردی برداشت نہیں کی۔
رہی بات پیپلز پارٹی کی تو یہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جماعت نہیں جس کی تحریکیں آندھی طوفان کی طرح چلتی تھیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی سیاست، جرات اور احتجاجی روایت ماضی کی حکایت ہوئی۔
زرداری صاحب کی پی پی پی گلشن کا کاروبار چلا سکتی ہے، کوئی چکر چلا سکتی ہے، ہوا میں تیر چلا سکتی ہے، لیکن جہاں تک تحریک کا تعلق ہے تو شاید وہ کوئی ’چل سو چل‘ تحریک ہی چلا سکے۔
اگر کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ٹرین مارچ کے بہانے بلاول کو ریل گاڑی کی سیر کرانے کی طرح کوئی خراماں خراماں چلتی تحریک چلی بھی تو اس کے ذریعے حکومت کو چلتا کرنا یا چلتے مقدمات کو لنگڑی دے کر گرانا ممکن نہیں لگتا۔ زرداری کی پالیسوں کی بدولت پیپلز پارٹی کا ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ستیاناس بلکہ سوا ستیاناس ہو چکا ہے ۔
مولانا فضل الرحمان اسی کی دہائی میں ضیا آمریت کے خلاف جاندار تحریک کا حصہ بنے تھے مگر اس وقت آتش جوان تھا۔ چالیس سال ہو گئے ہیں وہ اپوزیشن تحریک کا حصہ نہیں بنے بلکہ ہر حکومت کا حصہ رہے۔
حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلانا باتوں کی حد تک درست ہو سکتا ہے مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہیں۔