فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع آئفل ٹاورکی چوٹی پر منگل کو انٹینا لگنے کے بعد اس کی بلندی میں چھ میٹر (20 فٹ) کا اضافہ ہو گیا۔
فرانسیسی انجینیئرز نے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ٹاور پر انٹینا نصب کیا۔ پیرس کا بلند ترین آئفل ٹاور جسے پیار سے ’خاتون آہن‘ کہا جاتا ہے، اس کی اونچائی انٹینا لگنے کے بعد 330 میٹر ہو گئی ہے۔
علاقے میں فاصلے پر موجود سیاحوں نے ٹاور پر انٹینا لگنے کا منظر دیکھا جب دو انجینیئرز نے انٹینا نصب کیا جو زمین سے مشکل سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
نیا انٹینا دارالحکومت کے علاقے میں ڈیجیٹل ریڈیو کی نشریات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ٹاور کی دکھ بھال کرنے والی کمپنی کے سربراہ ژاں فرانسو مارتیں نے صحافیوں کو بتایا: ’یہ بڑے فخرکا تاریخی لمحہ ہے جو آئفل ٹاور کی زندگی میں کم ہی آتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹاور ٹیکنالوجی اور سائنس کے تجربات کے مقام کی حیثت سے اپنی بنیاد کی طرف واپس آ رہا ہے۔‘
انجینیئرنگ کا شاہکار آئفل ٹاور 1889 میں ماہر تعمیرات گستاوو آئفل نے تعمیر کیا تھا جسے 20 سال بعد توڑ دیا جانا تھا۔ ٹاور کو بچانے کے لیے آئفل نے سخت محنت کی اور ایسی جگہ بنا دیا جہاں سائنسی آلات نصب ہیں۔
انہوں نے اس پر موسم پر نظر رکھنے والے آلات نصب کیے اور اسے خلا کے نظارے کے مقام پر طور استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔
سرکاری تاریخ کے مطابق ابتدا میں اس کا اہم کام ٹاور کی حیثیت سے فوج کے لیے ریڈیو سگنل نشر کرنا تھا۔ اس کردار کی بدولت وہ تباہی سے محفوظ رہا۔ 1910 کی دہائی میں اسے امریکہ تک ٹیلی گرام بھیجنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
اسے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایسے سگنل پکڑنے کا اعزاز حاصل ہے جس میں جرمنی کی طرف سے میدان جنگ کے لیے ہدایات دی جاتی تھیں۔
سال 2000 میں ٹاور پر ایک انٹینا نصب کیا گیا تھا جسے ڈیجیٹل ٹیلی ویژن کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔