آسٹریلوی شہری اور کرکٹ کے مداح لیوک گلیئن پر 1998 میں ’پتھر برسائے‘ گئے لیکن کرکٹ کی محبت 24 سال بعد پھر انہیں پاکستان کھینچ لائی ہے۔
لیوک بتاتے ہیں کہ ’مجھے 1998 میں ہوٹل سے باہر نہ نکلنے کا کہا گیا تھا۔ آسٹریلیا کی ٹیم نے مجھے اپنے پروں میں لے لیا اور میچ پر لانے لے جانے لگے۔‘
وہ 24 سال پہلے پاکستان کے دورے کے دوران اپنی نقل و حرکت کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب ہم دوسرے ٹیسٹ کے لیے پنڈی سے پشاور گئے اور پھر جب ہم کراچی گئے تو مجھے کھلاڑیوں کے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ میں ایک صحافی کے کمرے میں رہا کیوں کہ باہر جانا بہت خطرناک تصور کیا جاتا تھا۔‘
ہوٹل سے باہر نکلنے پر لیوک نے اپنے ساتھ پیش آئے معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں باہر گیا تو گلیوں میں لوگوں کے گروہ پیدل چل رہے تھے۔ مجھ پر پتھر پھینکے گئے، کھانا پھینکا گیا۔ صرف اتنا فاصلہ طے کرنے میں جتنا ہوٹل سے یہاں تک کا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ میں واپس گھر جا رہا ہوں۔ مجھے یہ سب برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ماضی کی یادوں سے ہٹ کر موجودہ حالات میں پاکستان کا دورہ اور اس سے منسلک اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے لیوک نے کہا کہ ’اب 24 سال بعد عدم تحفظ کا احساس تقریباً موجود ہی نہیں ہے جیسے کہ پہلے تھا لیکن پھر بھی ہم خطرے کی وجہ سے یہاں نہیں آنا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سماجی طور پر اب 24 سال پہلے کے مقابلے میں بہت سکون ہے۔ یہاں آنا بہت آسان ہے۔ پاکستان کا لطف اٹھانا بہت آسان ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیوک حالیہ دورے میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں یہاں تک کہ ایک ڈھابہ ہوٹل پر بیٹھے چائے بھی پی رہے ہیں۔
پاکستانی شہری لیوک کے ساتھ تصاویر کھنچواتے دکھائی دے رہے ہیں اور ان سے کرکٹ سے متعلق بات چیت بھی کر رہے ہیں۔
لیوک نے بتایا کہ ’میں نے بہت سے لوگوں کو کہا ہے جب وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آسٹریلیا جیت جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ مجھے پرواہ نہیں ہے۔ میں یہاں آسٹریلیا کی جیت کے لیے نہیں آیا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’میں چاہوں گا کہ ہم جیت جائیں لیکن میں یہاں کرکٹ کے لیے آیا ہوں تاکہ باہر کی دنیا کو بتا سکوں کہ ہم واقعی کرکٹ دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کا سفر کر سکتے ہیں اور محفوظ اور خوش رہ کر اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔‘