یہ کہانی بہت پرانی ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، کہانیاں تو ایک جیسی رہتی ہیں بس وقت کے ساتھ کردار بدل جاتے ہیں۔
اس کہانی نے جہاں جنم لیا وہ جگہ پاکستان کے 22ویں وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے پچھواڑے اور پہاڑی کی دوسری سمت واقع ہے۔ واقعہ لگ بھگ ساڑھے 23 صدیاں پرانا ہے۔
کوٹلیہ چانکیہ جیسا عالی دماغ جب جولیاں یونیورسٹی تکشاشلا (حالیہ ٹیکسلا) سے فارغ التحصیل ہوا تو اس نے اس وقت مگدھ کی راجدھانی پاٹلی پتر میں، جسے آج پٹنہ کہتے ہیں، قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اس وقت یہاں دھن نند نامی راجہ کی حکومت تھی۔
اس راجہ کی ایک دان شالہ نامی کمیٹی تھی جو ہندوستان بھر سے آئے ہوئے علما و فضلا کو ان کے تحقیقی کاموں اور نظریات پر ایک کروڑ روپے تک کا انعام دینے کی مجاز تھی۔ یہ کمیٹی آج کے نوبل انعام کمیٹی سے مشابہ قرار دی جا سکتی ہے۔
کوٹلیہ چانکیہ جب پاٹلی پتر پہنچے تو جلد ہی اپنی علمی دھاک بٹھانے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ اس کمیٹی کے سربراہ بھی بنا دیے گئے۔
لیکن جیسا کہ درباروں میں ہوتا ہے۔ ایک دن بادشاہ نے دربار میں کسی بات پر چانکیہ کی نہ صرف بےعزتی کر دی بلکہ اسے دربار سے بھی نکال دیا، لیکن دربار سے نکلتے وقت چانکیہ نے بادشاہ کو کہا کہ تم ’نالائق بادشاہ ہو، میں تمہاری جگہ یہاں کسی قابل بادشاہ کو لا کر بٹھاؤں گا۔‘
یہ کہہ کر چانکیہ پاٹلی پتر سے واپس ٹیکسلا کی جانب چل پڑے۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ کچھ بچے ایک فرضی دربار لگا کر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ایک بادشاہ بنایا ہوا ہے، جس کے سامنے مسائل پیش کیے جاتے ہیں اور وہ آگے سے ہدایات دیتا ہے۔
چانکیہ ان بچوں کی کارگزاری دیکھنے چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں بادشاہ کا کردار ادا کرنے والے بچے کی معاملہ فہمی اس قدر متاثر کرتی ہے کہ وہ اس بچے سے ملتے ہیں، اس سے سوال جواب کرتے ہیں۔ بچہ انہیں بتاتا ہے کہ وہ لاوارث ہے اور اپنے مالک کا ریوڑ چراتا ہے۔ چانکیہ اس بچے کو مالک سے خرید کر اپنے ساتھ ٹیکسلا لے آتے ہیں۔ اس بچے کا نام چندرگپت موریہ تھا۔
چانکیہ ٹیکسلا کی جولیاں یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور دیگر شاگردوں کی طرح چندر گپت کو بھی اس دور کی سیاسیات پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ وقت گزرتا رہتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب سکندر اعظم ٹیکسلا میں آ یا ہوا تھا اور پوٹھوہار میں اپنا گورنر تعینات کر کے یہاں سے واپس چلا گیا تھا۔ چندر گپت موریہ دھن راجہ سے اپنی بے عزتی کا بدلہ چکانے میں دن رات تڑپتا رہتا ہے۔
اس کے لیے اس نے سب سے پہلے پوٹھوہار، موجودہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں کا دورہ کیا اور لوگوں کو یونانیوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔
جب اچھی خاصی سپاہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یونانیوں کو شکست دے کر اس علاقے میں اپنی حکومت قائم کر لی اور فوج کی کمان چندر گپت موریہ کے سپرد کر دی۔
چندر گپت کی فوجی اور چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی اتنی کارگر ہوئی کہ کئی ناکام حملوں کے بعد وہ پاٹلی پتر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دھن راجہ کے پاس مضبوط فوج ضرور موجود تھی مگر رعایا اس سے خوش نہیں تھی اس لیے بھی شکست اس کا مقدر ٹھہری۔
جب پاٹلی پتر کے تخت پر چندر گپت موریہ تخت نشین ہوا تو عملی طور پر امور سلطنت کی ذمہ داری چانکیہ کے پاس ہی تھی کیونکہ چندر گپت موریہ جیسے لاوارث بچے کو مگدھ جیسی ریاست کا حکمران بنانے کے پیچھے چانکیہ کا ہی دستِ باکمال تھا۔
چندر گپت موریہ کی فوج اس وقت چھ لاکھ پیادہ سپاہیوں، 30 ہزار سواروں، نو ہزار ہاتھیوں اور آٹھ ہزار رتھوں پر مشتمل تھی۔ یہ جس طرف کا رخ کرتی ادھر کی مقامی ریاستوں کو زیر کرتی جاتی۔ نتیجتاً تاریخ میں پہلی بار بنگال سے پشاور تک ایک ہی سلطنت قائم ہوئی جسے بھارت کا نام دیا گیا۔
یہ چندر گپت موریہ ہی تھا جس نے پشاور سے پاٹلی پتر تک 12 سو میل لمبی جی ٹی روڈ بنوائی۔
کاروبار حکومت کامیابی سے چل رہا تھا کہ اسی دوران بارشوں نے منہ موڑ لیا۔ اس قدر خوفناک قحط آن پڑا کہ لاکھوں لوگ فاقوں سے مر گئے۔ چندر گپت موریہ اتنا غمگین ہوا کہ تخت چھوڑ کر جنگلوں میں نکل گیا۔
اس پرانی کہانی میں اور آج کے پاکستان کی راجدھانی کے حالات میں اتنی مماثلتیں ضرور ہیں کہ عمران خان بھی چندر گپت موریہ کی طرح ’سٹیٹس کو‘ توڑ کر اقتدار میں آئے ہیں۔
مگر ابھی تک وہ اپنی راجدھانی کے معاملات کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ شاید ان کے ساتھ چانکیہ جیسا کوئی مشیر نہیں ہے۔ ملک میں جاری معاشی بحران کو اگر اس زمانے کے قحط سے تشبیہ دے دی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی حکمران کو جنگلوں کارخ کرنا پڑے گا اور بچ جانے والے لوگ اس چانکیہ کو تلاش کر رہے ہوں گے جو اس کے پیچھے تھا۔