تاحد نگاہ پھیلا مٹیالا پانی، پانی کے بیچ میں چھوٹے جزائر میں ہوا کے دوش پر لہلہاتی آبی گھاس، پانی کے اوپر اڑتے ہوئے آبی پرندے، کنارے پر کھڑے پیپل کے درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ، کچھ دور پانی میں ڈبکیاں لگاتی ہوئی رنگ برنگی بطخیں۔ یہ مناظر حیاتاتی تنوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھنے والی سندھ کی آب گاہ، ہالیجی جھیل کے ہیں۔
یہ جھیل کراچی سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر قومی شاہراہ پر ٹھٹھہ سے پہلے واقع ہے۔
متحدہ ہندوستان پر برطانوی دور حکومت کے دوران جب دوسری عالمی جنگ چھڑی تو برطانیہ کے اتحادی کئی ممالک کی افواج کراچی آگئیں۔ ان فوجیوں کے لیے برطانوی سرکار نے ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا۔
ہالیجی جھیل ایک مصنوعی جھیل ہے۔ مضبوط پتھر کی بنی جھیل کے انسپیکٹر کی رہائش گاہ آج بھی ہالیجی جھیل پر موجود ہے۔ جس پر لگی تختی کے مطابق یہ جھیل 1943 میں مکمل ہوئی۔
1982 میں ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ نے جھیل کے انفارمیشن مرکز کا افتتاح کیا تھا۔
1800 مربع کلومیٹر، 700 ایکڑ پر پھیلی ہالیجی جھیل کی گہرائی 17 سے 23 فٹ ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق ہالیجی جھیل میں 500 سے زائد مگرمچھ بھی آباد ہیں۔
اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی پسندیدہ آماجگاہ تھی۔ 1972 میں اس جھیل کو جنگلی حیات کی مکمل پناہ گاہ (سینچوری) کا درجہ دیا گیا تھا۔
انڈس فلائے وے زون کے راستے پر ہونے کی وجہ سے موسم سرما کے دوران سائبیریا اور دیگر ٹھنڈے ممالک سے مہمان پرندے بڑی تعداد میں اس جھیل پر آتے تھے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق مہمان پرندوں میں ماہی خور آبی پرندے، لم ٹنگے، بطخ، ہنس، فلیمنگو، قوق، بگلے، سفید بگلے، لق لق، بحری ابابیل اور مرغابیاں موسم سرما میں بڑی تعداد میں ہالیجی جھیل پر آتے تھیں۔
ون یونٹ کے خاتمے کے بعد اس جھیل کا انتظام سندھ وائلڈ لائف بورڈ نے سنبھالا۔ اس دور میں ایک عالمی ٹیم کے سروے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ہالیجی جھیل 250 سے زائد اقسام کے پرندوں کا مسکن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرندوں کی اتنی اقسام کے باعث ہالیجی جھیل کو ’برڈ واچر یا پرندہ بینوں کی جنت‘ کا خطاب دیا گیا۔
ہالیجی جھیل کو رامسر کنویشن کے تحت ’رامسر سائٹ‘ قرار دیا گیا۔ جس کے بعد اب اس جھیل کو عالمی معاہدے کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
رامسر کنویشن عالمی معاہدہ 2 فروری 1971 کو ایران کے شہر رامسر میں کنونشن آن ویٹ لینڈ یعنی آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس کے دوران شروع ہوا تھا جو 1975 میں نافذ ہوا۔
اس معاہدے کے تحت ایسی آب گاہیں جہاں کثیر تعداد میں پودوں، پرندوں اور مچھلیوں کی درجنوں اقسام پرورش پاتی ہیں اور یہ آب گاہیں ملک کی معیشت میں بھی کردار ادا کرتی ہوں اور لوگوں کے روزگار کا سبب ہوں ان کو رامسر سائٹ قرار دیا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان کی 19 آب گاہوں کو رامسر سائٹ کا درجہ حاصل ہے، جن میں سے سندھ کی 10 آب گاہیں ہالیجی جھیل، انڈس ڈیلٹا، انڈس ڈولفن ریزرو، کینجھر جھیل، دیہہ اکڑو ٹو، ڈرگ جھیل، جبو لگون، نرڑی لگون، حب ڈیم کا آدھا حصہ اور رن آف کچھ شامل ہیں۔
20 سال قبل تک کراچی شہر کو ہالجی جھیل سے پانی دیا جاتا تھا۔ سٹاف انچارج، ہالیجی ویٹلینڈ اشرف علی بھرگڑی کے مطابق کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کراچی شہر کو ہالیجی کے بجائے کینجھر یا کلری جھیل سے پانی دینے کے باعث ہالیجی جھیل کو شدید نقصان پہنچا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اشرف علی بھرگڑی نے بتایا: ’کراچی کو ہالیجی جھیل سے پانی مہیا نہ کرنے کے بعد اب اس جھیل میں پانی آتا تو ہے مگر نکاسی نہ ہونے کے باعث جھیل کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ پرندوں کی خوراک والی گھاس اور چھوٹی مچھلیاں نہ ہونے کے باعث پرندوں کی تعداد میں بھی کمی آرہی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’جھیل کی بحالی کے لیے ضروری ہے اس جھیل سے کراچی کو دوبارہ سے پانی دیا جائے۔ تاکہ تازہ پانی آنے سے جھیل صحت مند رہے۔ نئے پانی سے مچھلی کا بیج بھی بڑھے گا۔ اور گھاس بھی بڑھے گی۔‘