مدرسہ، ایک ایسی جگہ جس کہ بارے میں سوچتے ہی ذہن میں دو خیالات آتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں صرف دین اور قرآن کی تعلیم دی جاتی ہوگی اور دوسری یہ کہ وہاں پر بڑی بڑی داڑھی والے علما اور مفتی صاحبان ہوں گے جو صرف دینی تعلیم و تربیت کی بات کریں گے اور ان مدارس کے طلبا کو جدید دور کے طور طریقوں سے کیا واقفیت۔
لیکن ان سب شکوک وشبہات کو مٹانے کے لیے مجھے جامعہ عثمانیہ جانا پڑا۔ یہ مدرسہ پشاور سے باہر تقریباً 30 کلومیٹر باہر نوشہرہ میں واقعہ ہے۔ اس جامعہ کی کچھ خاص باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ پاکستان میں پہلا مدرسہ ہے جہاں ایک عجائب گھر بنایا گیا ہے۔
اس عجائب گھر میں پرانے وقتوں کی نایاب چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ان کے پاس پیغمبر اسلام کی تلوار کا ایک ماڈل بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس عجائب گھر میں زمانہ قدیم کی گھریلو اشیا، خنجر، ثقافتی لباس، پرانے زمانے میں استعمال ہونے والے ٹیلی فون، کمپیوٹر کے ماڈل اور ہاتھ سے لکھے گئے قرآن کے نسخے بھی شامل ہیں۔
مدرسے میں پڑھنے والے بچوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں کے ماڈلز تیار کر کے یہاں پر رکھے ہیں۔
جامعہ کے عجائب گھر کے ڈائریکٹر مفتی ارسلان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارا مقصد اپنے طلبا اور طالبات میں تاریخ، ریسرچ اور جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ کل کو جب ایک بچہ یہاں سے پڑھ کر باہر نکلے تو اسے دین و دنیا دونوں کا علم ہو۔ ہمارے اس عجائب گھر کے لیے ہمارے طلبا خود نایاب اور پرانی چیزیں لاتے ہیں اس کے علاوہ بھی کافی لوگ مختلف علاقوں سے زمانہ قدیم کی چیزیں ہمیں اس عجائب گھر کے لیے دے دیتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’لوگوں کی جانب سے عطیہ کیا گیا سامان ماہرین آثار قدیمہ کی جانچ پڑتال کے بعد یہاں رکھا جاتا ہے۔‘
جامعہ عثمانیہ کے میڈیا کوآرڈینیڑ مفتی سراج نے بتاتے ہیں کہ ’یہ عجائب گھر پاکستان میں کسی بھی مدرسہ میں بننے والا پہلا اور واحد عجائب گھر ہے، کیونکہ مدرسوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہاں صرف دین اور قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن ہمارے پاس دین دنیا دونوں کا علم دیا جاتا ہے۔ ہمارے مدرسے میں پڑھنے والی طالبات بھی یہاں کا دورہ کرتی ہیں کیونکہ ہمارے مدرسے میں تقریبا 280 کے قریب بچیاں پڑھتی ہیں۔‘
تحریر و تصاویر صبا رحمان