امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ طویل علالت کے بعد بدھ کوانتقال کر گئیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کینسر کے مرض میں مبتلا البرائٹ کی عمر 84 سال تھی۔
البرائٹ کے خاندان نے بدھ کی شام جاری ایک بیان میں ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا: ’ہم نے ایک پیار کرنے والی ماں، دادی، بہن، خالہ اور دوست کو کھو دیا ہے۔‘
صدر جو بائیڈن نے ان کی وفات کے افسوس کے لیے وائٹ ہاؤس اور دیگر وفاقی عمارتوں اور گراؤنڈز پر امریکی جھنڈا 27 مارچ تک سرنگوں کرنے کا حکم دیا ہے۔
میڈلین البرائٹ نازی اور پھر سوویت کے زیر تسلط مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والی ایک پناہ گزین بچی کی حیثیت سے امریکہ پہنچی تھیں اور ان کو وہ اعزاز حاصل ہوئے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں۔
ایک تاحیات ڈیموکریٹ البرائٹ کو 1996 میں صدر بل کلنٹن نے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ منتخب کیا۔
اس سے قبل وہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے عہدے پر فائز رہیں، جو اس عہدے پر فائز ہونے والی دوسری خاتون تھیں۔
وزیر خارجہ کے طور پر البرائٹ امریکی حکومت کی تاریخ میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔ تاہم وہ صدارت کی جانشینی کی امیدوار نہیں بن سکیں کیوں کہ وہ چیکوسلواکیہ میں پیدا ہوئی تھیں۔
اس کے باوجود عالمی سطح پر ان کو سراہا گیا یہاں تک کہ ان کے سیاسی مخالف بھی البرائٹ کی قابلیت کے معترف تھے۔
عہدہ چھوڑنے کے بعد انہوں نے صدر بش کی سفارت کاری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ان کا کہنا تھا کہ بش نے اعتدال پسند عرب رہنماؤں کو امریکہ سے بیزار کر دیا اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں خطرناک دراڑ کا امکان پیدا کیا۔
چیکوسلواکیہ کی ایک پناہ گزین کے طور پر جنہوں نے نازی جرمنی اور سویت جارحیت کی ہولناکیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اس لیے انہوں نے کلنٹن انتظامیہ پر کوسوو کے تنازعے میں عسکری طور پر ملوث ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کیوبا پر بھی سخت موقف اختیار کیا۔ البرائٹ نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ ’زیادہ پر اعتماد طریقے سے کام کریں اور ہمیشہ سوال پوچھیں اور اس کا انتظار نہ کریں۔‘
البرائٹ نے نیٹو کی توسیع اور کیمیائی ہتھیاروں پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے والے معاہدے کی سینیٹ کی حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔
البرائٹ نے بطور وزیر خارجہ 1998 میں مشرق وسطیٰ میں امن کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کیا۔
البرائٹ نے پہلے 1993 کے اوسلو معاہدے کو وسعت دینے کی کوشش میں محدود پیش رفت کی جس سے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کو خود مختاری قائم کرنے میں مدد ملی۔ 1998 میں ان کی کوششوں سے مغربی کنارے کے تقریباً 40 فیصد حصے کا کنٹرول فلسطینیوں کے حوالے کر دیا گیا۔
انہوں نے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کی قیادت میں اسرائیل اور شام کے درمیان 2000 کے امن معاہدے پر بات چیت کے لیے ایک کوشش کی بھی قیادت کی۔ اس نے بلقان کی جنگ اور روانڈا میں نسل کشی کے دوران امریکی خارجہ پالیسی کی مدد کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر سے البرائٹ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر بائیڈن نے ان تعزیت کرتے ہوئے کہ: ’امریکہ کے پاس سیکرٹری البرائٹ سے زیادہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے پرعزم چیمپیئن نہیں رہا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جب میں میڈلین کے بارے میں سوچتا ہوں میں ہمیشہ اس کے پرجوش یقین کو یاد رکھوں گا کہ 'امریکہ ہم سب کے لیے ناگزیر قوم ہے۔‘
موجودہ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ البرائٹ ’ایک شاندار سفارت کار، ایک بصیرت والی رہنما، ایک دلیر ٹریل بلزر، ایک سرشار رہنما اور ایک عظیم اور بہترین شخص تھیں جنہوں نے امریکہ سے دل کی گہرائیوں سے محبت کی اور اپنی زندگی اس کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔‘
بل کلنٹن نے انہیں ’بہترین وزیر خارجہ، اقوام متحدہ کی ایک شاندار سفیر، ایک شاندار پروفیسر اور ایک غیر معمولی انسان‘ قرار دیا۔
کلنٹن کے ساتھ ساتھ ان کے جانشین جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما نے بھی ان کی تاریخی خدمات کو سراہا۔
اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ البرائٹ نے ’دنیا کے کچھ انتہائی غیر مستحکم علاقوں میں ترقی کی راہیں ہموار کیں اور وہ جمہوری اقدار کی چیمپیئن تھیں۔‘