براہوی زبان میں قرآن کا 100 سال پرانا نسخہ اس وقت خضدار کی مولانا محمد عمر دین پوری لائبریری میں رکھ دیا گیا ہے۔
محقق مصنف سٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان خضدار سلطان احمد شاہوانی کہتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کام تھا اور مولانا محمد عمردین پوری کے خاندان نے قرآن کے اس نسخے کو اپنے پاس رکھا تھا۔ کسی کو دینے پر راضی نہیں تھے۔
سلطان احمد شاہوانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کے لیے بہت کوششیں کی گئیں اور آخر کار اس میں کامیابی ملی اور ہم نے نسخے کو ان سے لے کر خضدار کی لائبریری میں محفوظ کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خضدار میں مولانا محمد عمر دین پوری کے نام سے ایک ڈیجیٹل لائبریری ڈھائی تین سال قبل قائم کی گئی تھی، جس میں ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ان کی کوئی یادگار بھی موجود ہو۔
سلطان شاہوانی کے مطابق: اس کامقصد یہ تھا کہ قرآن کے اس نسخے کو محفوظ کرکے اسے لوگوں تک رسائی دینا۔
انہوں نے بتایا کہ مولانا محمد عمر دین پوری نے قرآن کے اس ترجمے کو لکھنے کا کام 1916 میں شروع کیا۔
سلطان شاہوانی نے بتایا کہ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ قرآن کو براہوی میں ترجمہ کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ ان دنوں یہاں پر انگریزیوں کی مشینریز کام کررہے تھے تاکہ نہ صرف یہاں بلکہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کو کسی طرح عیسائیت کی طرف راغب کریں۔
مولانا عمر دین پوری اس وقت سندھ کے علاقے شکار پور میں رہائش پذیر تھے۔ ان اطلاعات کے ملنے کے بعد انہوں نے پہلے ضلع کچھی کا رخ اور وہاں سے پھر جھالاوان چلے آئے۔
سلطان شاہوانی کہتے ہیں کہ خضدار کے یہ علاقے آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اگر ہم سو سال سے بھی پہلے کا وقت تصور کریں تو اس وقت اس سے بھی بدتر حالات اور خوفناک پسماندگی تھی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ مولانا عمر کو پتہ چلا کہ انگریزوں نے انجیل کا ترجمہ براہوی زبان میں کردیا ہے اور اسے اب جھالاوان میں پھیلانا چاہتے ہیں، تو وہ انگریزوں کے آمد سے قبل ہی اس علاقے میں پہنچ گئے۔
سلطان احممد کے بقول: مولانا نے قرآن کے ترجمے کو لکھنے کے بعد اس کی کتابت بھی خود اور بعد میں اس کو تقسیم بھی کیا، جس کے لیے انہوں نے چندہ جمع کرنے کے علاوہ اپنی کچھ زمین تک فروخت کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا محمد عمر نے نہ صرف قرآن کا ترجمہ کیا بلکہ انہوں نے خان قلات نوری نصیر نے جو یہاں پر اسلام کے پھیلاؤ اور مدارس کے قیام کے لیے کام کیا تھا، اس کو بھی مزید بڑھایا۔
مولانا کے حوالے سے معلومات کہاں سے ملیں؟
بلوچستان میں تعلیم کی شرح ماضی میں بہت کم رہی اور یہاں کے تاریخ بھی مقامی لوگوں نے کم لکھی ہے۔ سلطان شاہوانی نے بتایا کہ ہم نے مولانا کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لیے ان کے شاگردوں کی تلاش کی، جن میں اب اکثر فوت ہوچکے ہیں۔ تاہم ایک شاگرد ابھی تک حیات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مولہ میں رہنے والے محمد عمر موسیانی مولانا محمد عمر دین پوری کے شاگرد رہ چکے ہیں، جنہوں نے ان کی زندگی اور جدوجہد کے حوالے سے معلومات فراہم کی۔
اس وقت جھالاوان کے حالات کیسے تھے؟
سلطان شاہوانی کہتے ہیں کہ اگر ہم تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ زمانہ انگریزوں کے خلاف چل رہا تھا اور یہاں جھالاوان میں نورا مینگل عسکری محاذ پر انگریزوں کے خلاف لڑ رہا تھا اور اس نے ساتھیوں کے ساتھ قرآن پر حلف لیا تھا کہ وہ انگریزوں کے خلاف لڑے گا۔
دوسری جانب مولانا محمد دین پوری نے عسکری کے بجائے دینی محاذ پر لوگوں کی تربیت شروع کی تاکہ کوئی غربت اور جہالت کی وجہ سے انگریزوں کے جھانسے میں نہ آجائے، جس کے لیے وہ گھر گھر گئے اور قرآن کے نسخے کو تقسیم کرنے کے ساتھ ان کو نصیحت بھی کرتے رہے۔
جھالاوان کے علاقے مولہ میں قیام کا فیصلہ کیوں کیا؟
مولانا محمد دین پوری نے شکارپور کو چھوڑ کر پہلے ضلع کچھی کے علاقے کا رخ کیا اور بعد میں جھالاوان کے ضلع خضدار میں مولہ میں نڑ کے علاقے میں قیام پذیرہوئے۔ وہ آخرعمر تک یہیں رہے۔
سلطان شاہوانی نے بتایا کہ یہاں پر قیام کا مقصد یہ تھا کہ مولہ کایہ علاقہ زیدی سے شروع ہوتا ہے اور پھر ایک ٹرن لے کر کچھی کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اس لیے وہ یہاں بیٹھ کر یہاں کے علاقوں کو دیکھ سکتے تھے۔
دوسری جانب الغنی ویلفیئرٹرسٹ کے بانی سعداللہ مینگل جنہوں نے مولانا محمد دین پوری کے قرآن کے براہوی میں ترجمہ کردہ قدیم نسخے کو لائبریری کو منتقل کرنے کی جدوجہد کی کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے لیے کافی محنت کرنا پڑی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعداللہ مینگل نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ یہ نسخہ چھاپ شدہ ہے، جو پہلی براہوی زبان کا ترجمہ ہے۔ یہ تقریباً 1916 میں چھپا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم مولانا محمد عمر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے کو بھی تلاش کررہے ہیں، جس کے حوالے سے اطلاع کے کہ مولانا کے نواسے کے پاس موجودہے، جو واحد نسخہ ہے۔
مولانا محمد دین پوری کون تھے؟
مولانا محمد دین پوری کے حوالے سے مکتبہ درخانی ڈھاڈر ضلع کچھی کے علاقے اپنے ایم فل کے مقالے میں عبدالباری لہڑی نے کچھ تفصیل درج کی ہے۔ اس کے مطابق انہوں کے آباؤ و اجداد نے پندران کے ضلع قلات سے سندھ کی طرف نقل مکانی کی تھی۔
عبدالباری لہڑی کے مطابق: ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے محققین کہتے ہیں کہ یہ 1881 یا 1882 کا دور رہا ہے۔ بعض مصنفین نے ان کی جائے پیدائش کو مستونگ قرار دیا ہے، جن میں ڈاکٹر عبدالرحمان براہوی بھی شامل ہیں۔ تاہم یوسف رودینی اپنے مقالے میں ان کے چچا کے حوالے سے لکھتے ہیں وہ مستونگ میں پیدا نہیں ہوئے۔
وہ مزید اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ علامہ محمد دین پوری کا سب سے اہم کارنامہ براہوی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 50 سے زائد کتابوں کی تصنیف و تالیف کی ہے۔
باری لہڑی مزید لکھتے ہیں کہ مولانا محمد عمردین پوری نے 1912 میں قرآن کے ترجمے کا آغاز کیا۔ 1914 میں مکمل کرکے 1916 میں شائع کیا۔ یہ ترجمہ 1440 صفحات پر مشتمل ہے، جس کے لیے وڈیرہ نورمحمد بنگلزئی نے تین ہزار روپے دیے۔
مولانا عبیدا اللہ سندھی سے ملاقات
باری لہڑی کے مقالے کے مطابق انگریز مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کے باعث ان کے سخت خلاف تھے۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ ان خیالات سندھ تک پہنچ جائیں۔ اس لیے سرگرمیاں خفیہ رہتی تھیں۔
اس لیے طے ہوا کہ مولانا عبیداللہ سندھی مذکورہ خط کاغذ کی بجائے کپڑے پر کسی ایسی سیاہی سے تحریر کریں گے جو عام حالت میں پانی سے بھی مٹ نہ سکے۔
باری لہڑی نور محمد پروانہ کا حوالے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علامہ دین پوری نے ایک مرتبہ بڑے پیارے انداز میں اس خط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خط میں نے ایک بچی کی براہوی طرز کے سلے ہوئے کرتے میں اس طرح سلوایا کہ وہ کشیدہ اورکپڑے کے درمیان چھپ گیا۔ وہ بعد میں سندھ واپس آنے پر شیخ عبدالمجید سندھی کے سپرد کیا گیا۔
مقالے کےمطابق مولانا محمد عمر دین پوری نے 1923 میں دین پور سے ماہنامہ ’الحق‘ کا اجرا بھی کرکے براہوی زبان میں صحافت کی بنیاد ڈال دی۔
مولانا محمد دین پوری کی تاریخ کے حوالے سے ڈیجیٹل لائبریری خضدار میں رکھی ہوئی ان کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ انہوں نے 1949 میں 113 سال کی عمر میں وفات پائی۔