آسٹریلیا میں ہونے والے 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کو 30 سال ہوگئے ہیں، مگر پاکستانیوں کے لیے وہ جیت آج تک یادگار ہے، شاید اس لیے بھی کہ وہ واحد موقع تھا جب پاکستان نے ایک روزہ کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔
1992 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے رکن انضمام الحق کی کارکردگی، خصوصاً سیمی فائنل اور فائنل میں یادگار ہے۔
1992 کے ورلڈ کپ کے 30 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے انضمام الحق سے خصوصی ملاقات میں ان یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
انضمام الحق کا کہنا تھا کہ 92 کے ورلڈ کپ کی باتیں ایسی ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ کل ہی کی بات ہے۔
’زندگی میں کچھ عمل ایسے ہوجاتے ہیں کہ وہ کبھی پرانے نہیں ہوتے، ان کی یادیں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ جو بھی لوگ وہ ورلڈ کپ کھیلے ہیں، یہ ان کے لیے کل کی ہی بات ہے، 30 سال ہوگئے ہیں مگر ہمیں یہ کل کی ہی بات لگتی ہے۔‘
انضمام الحق نے بتایا کہ 92 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل والے دن ان کی طبیعت خراب تھی جس کی وجہ سے انہوں نے کھیلنے سے انکار کردیا تھا مگر ٹیم کے کپتان عمران خان نے کہا کہ تمہیں لازمی کھیلنا ہے۔
’میں اس میچ میں چھٹے نمبر پر بیٹنگ کے لیے گیا تھا، جس وقت میں گیا تھا تب ٹیم بہت دباؤ کا شکار تھی، میں جس وقت بیٹنگ کے لیے جارہا تھا، تو عمران خان آؤٹ ہوکر واپس آرہے تھے، کراس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی نیچرل گیم کھیلنے کی کوشش کرنا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انضمام الحق نے کہا کہ وہ شاید ان کا دن تھا، جس بولر کو جس طرح کھیلنا چاہا اس دن وہ شاٹ اسی طرح لگا، تو ’وہ میرا بھی دن تھا اور وہ پاکستان کا بھی دن تھا۔‘
فائنل کے بارے میں انضمام الحق نے بتایا کہ ٹیم میٹنگ میں یہ بات ہوئی تھی کہ وہ ہدف کا تعاقب نہیں کرنا چاہ رہے تھے، کیونکہ دوسری اننگز میں بہت ہی زیادہ دباؤ ہوتا ہے اس لیے پہلی اننگز کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پچ کی حالت شروع میں زیادہ اچھی نہیں تھی۔
’یہی پلان تھا کہ شروع میں روک کر کھیلنا ہے اور آخر میں حملہ کرنا ہے جس میں ہم کامیاب بھی ہوئے۔‘
جاوید میانداد اور عمران خان کی شراکت نے سست روی سے بیٹنگ کی، 34 اوورز میں 100 رنز ہوئے تھے، ’میں نے 35 گیندوں پر 42 اور وسیم اکرم نے 17 گیندوں پر 33 رنز بنائے جو بہت ہی اہم ثابت ہوئے۔ اس زمانے میں ڈھائی سو رنز کا ہدف کافی سمجھا جاتا تھا۔‘
انضمام نے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اس میچ میں بدقسمتی یہ تھی کہ دوسری اننگز کھیل رہا تھا، اس زمانے کا جو قانون تھا وہ کچھ ایسا تھا اور میچ کے دوران بارش کی وجہ سے ٹیم کو نقصان ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر اپنی جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی جانے والی اننگز بہت پسند ہے، اس میں ان کا سٹروک پلے بہت اچھا تھا، مگر وہ میچ ان کی اننگز کی وجہ سے نہیں بلکہ جونٹی روڈز کے ہاتھوں ان کے رن آؤٹ کی وجہ سے بہت مشہور ہوگیا۔ ’وہ رن آؤٹ جونٹی روڈز کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ اس سے پہلے انہیں کوئی نہیں جانتا تھا، ہمیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ کوئی ایسا بھی فیلڈر ہے جو اس طرح اُڑ کر رن آؤٹ کرسکتا ہے، اگر وہ ایسا نہ کرتا تو میں آرام سے پہنچ جاتا۔‘
’جس طرح میری اور عمران خان کی شراکت جاری تھی، ہمیں لگتا تھا کہ ہم جیت رہے ہیں۔‘
انضمام الحق نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ 1992 میں پاکستان کا آخری لیگ میچ کرائسٹ چرچ میں میزبان نیوزی لینڈ کے خلاف تھا۔ وہ میچ جیتنے کے بعد وہ وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کا میچ دیکھ رہے تھے کیونکہ اس میچ کے نتیجے پر منحصر تھا کہ پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل کھیلنے آکلینڈ جائے گی یا پھر واپس پاکستان کا ٹکٹ لینا ہوگا۔
’جس وقت بینجمن کی وجہ سے برائن لارا رن آؤٹ ہوا تھا نا، تو اتنی خوشی شاید آسٹریلیا والوں کو نہیں ہوئی ہوگی جتنی پاکستان کو ہوئی تھی، ہم باہر بیٹھے تھے مگر ہم پر کھیلنے والوں نے زیادہ دباؤ دیا تھا۔‘