ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی اداروں اور تھنک ٹینکس کے مطابق 80 لاکھ ٹن پلاسٹک کچرے کی صورت میں دنیا بھر کے سمندروں میں داخل ہوتے ہیں اور اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو 2050 تک حال یہ ہو جائے گا کہ سمندروں میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک زیادہ ہوگا۔
آپ کو یہ جان کر پریشانی ہوئی اور آپ نے اپنے آپ سے یہ تہیہ کیا کہ آئندہ صرف بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک ہی استعمال کرنا ہے، یا آپ نے یہ کہا کہ یہ تو دنیا بھر کے اعداد و شمار ہیں، پاکستان میں تو یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے۔
چلیں آپ کو مزید معلومات دیتے ہیں کہ کیسے پلاسٹک سے ہمیں خطرہ لاحق ہے۔ ایک پلاسٹک بیگ کو ڈی کمپوز ہونے میں پانچ سو سال لگتے ہیں۔ جی 500 سال اور ایک پلاسٹک کی بوتل کو ڈی کمپوز ہونے میں 300 سال۔
چلیں اب کچھ پاکستان کے اعداد و شمار بتا دیتے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق پاکستان میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے سالانہ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس استعمال میں ہر سال 15 فیصد اضافہ ہوتا ہے اور پاکستان کے کُل کچرے کا 65 فیصد پلاسٹک کے بیگ، بوتلیں اور پلاسٹک سے بنی دیگر اشیا پر مبنی ہوتا ہے۔
پریشانی میں اضافہ ہوا یا اب بھی یہ مسئلہ حکومت کے لیے ہے اور وہ ہی حل کرے۔ نہیں جناب یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے اور اس سے نجات یا کمی ہم سب کی یکجا کوششوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔
چلیں ایک اور طریقے سے پلاسٹک کے کچرے اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال پاکستان میں 33 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا بنتا ہے اور اس میں سے زیادہ تر لینڈ فلز یا جگہ جگہ زمین اور پانی میں پھیلا ہوتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر اس 33 لاکھ پلاسٹک کچرے کا انبار لگایا جائے تو اس کی اونچائی 16500 میٹر بنے گی۔ یعنی اس پلاسٹک کے کچرے کے پہاڑ کی اونچائی دنیا کی دوسرے بلند ترین چوٹی کے ٹو سے تقریباً دگنی ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں پانی کا ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک کے کچرے اور دیگر کچرے کا زیرِ زمین پانی میں مل جانے سے ایک بڑا خطرہ ہمیں لاحق ہے۔
کچرے کے ڈھیر تو ہم سب نے دیکھے ہی ہوئے ہیں اور اب ذرا سوچیے کہ یہ کچرا زیر زمین پانی میں مل جائے تو کیا ہوگا۔ ہم جو پانی استعمال کرتے ہیں، اس میں کچرے کے چھوٹے چھوٹے ذرات ملے ہوں گے۔
حکومت پاکستان نے حالیہ عرصے میں پلاسٹک کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ نئے طریقوں کے استعمال اور سرمایہ کاری کی مزید ضرورت ہے۔ عالمی رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان میں پلاسٹک کے کچرے کو صحیح طور پر ٹھکانے نہ لگانے کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ پاکستان نے بھی دنیا کے کئی ممالک کی طرح پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی عائد کی اور اس پر عمل درآمد کچھ عرصے کے لیے سختی سے کیا بھی گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد حالات جوں کے توں ہو گئے۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر خاص برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم خان کے مطابق پاکستان میں 2020 میں 39 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا تھا جبکہ اس میں 70 فیصد یعنی 26 لاکھ پلاسٹک کے کچرے کو صحیح طور پر ضائع نہیں کیا گیا۔
ہمیں بھی افریقی ملک روانڈا کی طرز پر پلاسٹک کے استعمال کے خلاف مہم چلانی ہوگی۔ روانڈا نے 2008 میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد کی تھی اور کامیابی سے اس پر عملدرآمد کروایا ہے۔ روانڈا میں پلاسٹک بیگ کے استعمال پر جیل ہو سکتی ہے اور جو غیر ملکی بھی روانڈا پہنچتا ہے تو امیگریشن ہی پر اسے تمام پلاسٹک بیگز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
پلاسٹک آلودگی کے حوالے سے پاکستان میں سیاسی سنجیدگی میں ابھی وقت لگے گا لیکن کیا اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے پاس اتنا وقت ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ مزید سنجیدہ ہو ملک بھر میں عوام کو آگاہی دینے کی فی الفور ضرورت ہے، ایک مربوط پالیسی درکار ہے جس پر سختی سے عملدرامد کرایا جائے اور ایک بار کی مہم کافی نہیں ہوتی بلکہ پلاسٹک آلودگی کے بارے میں مہم کو وقفے وقفے اور جدید طریقوں سے چلائے جانے کا وقت آ گیا ہے۔