ٹیسلا اور سپیس ایکس کمپنیوں کے بانی اور ارب پتی ایلون مسک نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کبھی کبھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
جرمن میڈیا کمپنی ایکسل سپرنگر کے سی ای او میتھیاس ڈوفنر کو دیے گئے انٹرویو میں، جو جریدے ’انسائیڈر‘ میں شائع ہوا، ایلون مسک نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کھل کر بات کی۔
ایلون مسک نے اںٹرویو کے دوران بتایا کہ کس طرح انسانوں کو ہمیشہ زندہ رہنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور کس طرح وہ انسان دوستی پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کس طرح وہ یوکرین میں انٹرنیٹ بند کرنے کی روسی کوششوں کو ناکام بنانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
ٹیسلا کے سی ای او، جنہیں دنیا کا سب سے امیر آدمی سمجھا جاتا ہے اور جن کی دولت کی مجموعی مالیت تقریباً 260 ارب ڈالر سمجھی جاتی ہے، نے کہا کہ ان کے خیال میں روسی صدر ولادی میر پوتن ان سے ’نمایاں طو پر امیر‘ ہیں۔
50 سالہ ایلون مسک نے کہا کہ انہوں نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ شروع ہونے کے فوراً بعد ملک کے ڈیجیٹل وزیر کی جانب سے درخواست موصول ہونے کے بعد یوکرین کو اپنے سٹار لنک سیٹلائٹس تک رسائی فراہم کرنے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
چونکہ روسی افواج نے یوکرین میں موبائل ٹاورز اور دیگر ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے، ایسے میں بہت سے لوگوں کے لیے انٹرنیٹ سے جڑنے کا واحد راستہ سٹار لنک ہی بن سکتا ہے۔
ایلون مسک نے انٹرویو کے دوران کہا: ’ہم پوتن کو یوکرین پر قبضہ نہیں کرنے دے سکتے۔ یہ پاگل پن ہے۔‘
جنگی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ایلون مسک نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یوکرینیوں کی مدد کے لیے ’کچھ سنجیدہ‘ کرنا ضروری ہے، اور ساتھ ہی ان کے خیال میں ان کی بے پناہ دولت اور ہائی ٹیک وسائل تنازعات کے دوران مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی غیر معمولی تعریف میں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے وولودی میر زیلنسکی کی حکومت کی مدد کے لیے بہت سے لوگوں سے زیادہ کام کیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خوش ہیں تو ارب پتی ایلون مسک نے جواب دیا: ’میرے خیال میں محبت کے درجے ہوتے ہیں۔ لیکن یقینی طور پر، مکمل طور پر خوش رہنے کے لیے، مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کام کی جگہ پر خوش اور محبت میں خوش رہنا چاہیے۔ لہذا مجھے لگتا ہے کہ میں درمیانے درجے کا خوش ہوں۔‘
ایلون مسک نے حال ہی میں موسیقار گرائمز سے علیحدگی اختیار کی، جن سے ان کے دو بچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ اکثر صرف ان کا کتا ہوتا ہے۔‘
بقول مسک: ’مجھے یقین ہے کہ ایسے وقت آتے ہیں جب ہر کوئی تنہا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’اگر میں سٹار شپ راکٹ پر کام کر رہا ہوں اور میں صرف اپنے چھوٹے سے گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، خاص طور پر اگر میرا کتا میرے ساتھ نہیں ہے، تو میں کافی تنہا محسوس کرتا ہوں کیونکہ میں کتے کے بغیر اکیلے ہی ایک چھوٹے سے گھر میں ہوں۔‘
ایلون مسک ٹیسلا کی فیکٹریوں میں دہرائے جانے والے یا خطرناک کاموں کو مکمل کرنے کے لیے ایک انسان نما روبوٹ ’آپٹی مس‘ (Optimus) تیار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ انسانی دماغ کو ایک دن آپٹی مس میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکے گا، جو انسان کی یادوں اور شخصیت کو محفوظ رکھے گا۔
لیکن انہوں نے کہا کہ وہ انسانوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کے خلاف ہیں، کیونکہ یہ ’معاشرے کا دم گھٹنے‘کے مترادف ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول ایلون: ’میرے خیال میں ہمارے پاس پہلے سے ہی شاہی حکومتوں (Gerontocracy) کا کافی سنگین مسئلہ ہے، جہاں بہت سے ممالک کے رہنما بہت بوڑھے ہیں۔ امریکہ میں بھی ایک بہت قدیم قیادت ہے۔‘
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن 79، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 75، ہاؤس سپیکر نینسی پیلوسی 82 اور سینیٹ میں پارٹی کے دو رہنما چک شومر اور مچ میک کونل بالترتیب 71 اور 80 سال کے ہیں۔
ایلون مسک نے کہا کہ ملک کے بانیوں کو منتخب عہدیداروں کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر کا تعین کرنا چاہیے تھا۔
’کیونکہ جمہوریت چلانے کے لیے، لیڈروں کا معقول حد تک آبادی کے بڑے حصے سے رابطہ ہونا چاہیے اور اگر آپ بہت جوان یا بہت بوڑھے ہیں، تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کے ساتھ منسلک رہا جائے گا۔‘
ایلون مسک نے گذشتہ ادوار کی تخلیقی اور سائنسی ذہانت سے موازنہ کیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ البرٹ آئن سٹائن، سٹیو جابز، بینجمن فرینکلن اور لیونارڈو ڈاونچی میں سے وہ سب سے زیادہ شراب کے گلاس کے لیے کس سے ملنا پسند کریں گے۔
جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ان میں سے کسی سے بھی ملاقات ان کے لیے ’اعزاز‘ ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بینجمن فرینکلن کے ساتھ ’رات کے کھانے میں سب سے زیادہ مزہ‘ آئے گا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مستقبل میں زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے نقطہ نظر سے اپنے تمام کاروبار شروع کرنے کی کوشش کی۔
ایلون مسک نے مزید بتایا کہ انہوں نے اپنی فلاحی فاؤنڈیشن کے ذریعے ماحولیات، تعلیم اور بچوں کی دیکھ بھال جیسے معاملات کی طرف توجہ دینے کی کوشش کی کیونکہ بھوک جیسے مسائل ’سیاسی اور رسد کا مسئلہ‘ ہیں۔
© The Independent