ہم سب اس وقت عالمگیر کرونا (کورونا) وبا کی زد میں ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ کام کا بوجھ شعبہ طب پر آیا۔
پاکستان کا شعبہ طب پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھا لیکن ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف اور ہسپتالوں کے عملے نے مل کر کام کیا اور قیمتی جانیں بچائی۔ اس دوران بہت سے ڈاکٹرز اور شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد خود اس وائرس میں مبتلا ہوئے اور اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق فروری 2022 تک پاکستان میں 103 ڈاکٹرز، ایک میڈیکل سٹوڈنٹ، چار نرسز، 66 پیرا میڈیکل سٹاف کرونا کے باعث اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان جیسا ملک جہاں لوگ ساری زندگی پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو شعبہ طب کی تعلیم دلواتے ہیں، وہاں وبا کے دوران اتنے زیادہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کا جہاں فانی سے کوچ کر جانا طب کے شعبے میں بہت بڑا خلا چھوڑ گیا ہے۔
کرونا وارڈ میں ڈیوٹی دینے والی ایک ماہر نفسیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ’میں وہ دکھ، چیخیں اور آنسو کبھی نہیں بھول سکتی جو میں نے اس وارڈ میں دیکھا۔ میں سارا دن ماسک، سرجیکل دستانوں، فیس شیلڈ اور حفاظتی لباس میں ہوتی تھی۔ میرے ہاتھ، پاؤں اور چہرہ ان دو سالوں میں خراب ہوگئے۔ میں وبا کے آغاز میں کم ازکم دو ماہ اپنے بچوں سے دور رہی کہ انہیں کوئی جراثیم نہ لگ جائیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’مریضوں کے دکھ درد اور ان کے لواحقین کی گریہ زاری مجھے شدید رنج میں مبتلا رکھتے تھے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کام کرتی رہی کیونکہ کرونا میں مبتلا مریضوں کو کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت تھی۔‘
ماہر سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر ساجد رحیم کہتے ہیں کہ اس بیماری نے ہر کسی کو اثر انداز کیا۔ ’یہ جنگی صورتحال تھی اور اس جنگ کو لڑنے والے ہیلتھ پروفیشنل تھے۔ انہوں نے اس بیماری کا مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں۔ اس عالمگیر وبا اور جنگ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ عام جنگ تو دو تین ہفتے میں ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ جنگ تو اب بھی جاری ہے تو فرنٹ لائن سب سے زیادہ نقصان سہتی ہے۔‘
ڈاکٹر ساجد رحیم نے مزید کہا: ’کرونا کی جنگ میں نہ ہی ہمارے پاس ہھتیار تھے، نہ ہی حفاظتی آلات۔ یہ جنگ ہمت اور بہادری سے لڑی گئی۔ ڈاکٹروں کو سارا وقت یہ اندیشہ رہتا کہ وہ کرونا وائرس میں ایکسپوز ہیں، کہیں ان کے گھر والے اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ سارا وقت پریشانی اور سٹریس میں ڈاکٹروں نے کام کیا۔ ان کے بہت سے ساتھی اپنی جان سے چلے گئے۔ اوپر سے عوام طبی شعبے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی سازش ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کرونا کے دوران کام کرنے والے تمام افراد کو اسناد کے ساتھ ایک بار مانیٹری بینفٹ ملنا چاہیے۔
کرونا بیماری کا سب سے پہلا نشانہ بننے والے ڈاکٹر گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض صرف 26 سال کے تھے اور کرونا میں مبتلا ان مریضوں کا علاج کر رہے تھے جو ایران اور عراق سے زیارت کرکے آئے تھے اور باڈر پر انہوں نے بہت مصائب کا سامنا کیا۔
ان کے علاج کے دوران اسامہ کو یہ بیماری لاحق ہوگئی اور وہ جانبر نہیں ہوسکے۔ پوری قوم نے ان کی بہادری اور فرض شناسی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد تو جیسے موت نے شعبہ طب کو اپنی لپیٹ میں ہی لے لیا اور نامور ڈاکٹرز، ڈی این، اساتذہ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اس وبا میں جان سے چلے گئے۔
پمز کے ڈاکٹر منظور جو ایمرجنسی کے انچارج اور ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ انہیں بھی کرونا ہوا۔ وہ ہمت سے اس کا مقابلہ کرتے رہے، لیکن پھر وہ وینٹی لیٹر پر چلے گئے اور جان کی بازی ہار گئے۔
میں انہیں 2018 سے جانتی تھی اور اکثر اپنے آرٹیکلز میں ان سے رائے لیتی اور ان سے بیماریوں کے بارے میں پوچھتی تھی۔ ہسپتال میں بھی ان کا رویہ بہت دوستانہ ہوتا تھا۔ وہ 16 جنوری 2021 کو کرونا کے باعث صرف 42 سال کی عمر میں چل بسے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی میں ایئرفورس کی فلائٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر ماہ نور فرزند کا بھی کرونا کے باعث انتقال ہوا۔ 22 اگست 2021 کو انہوں نے سی ایم ایچ ملیر میں آخری سانس لیں۔ ان کی تصاویر جب سوشل میڈیا پر آئیں تو ایک مسکراتی، قابل اور کم عمر ڈاکٹر کو یوں جاتا دیکھ کر سب کے دل رنجیدہ ہوگئے۔ پھر اگست میں ہی ڈاکٹر سمرہ علی، جو ٹیکسلا کی گائنا کولوجسٹ اور حاملہ تھیں،کو کرونا وائرس ہوا اور وہ جانبر نہ ہوسکی۔
ڈاکٹر ثنا فاطمہ لاہور، ڈاکٹر محمد جاوید پشاور، ڈاکٹر عبد القادر سومرو کراچی، ڈاکٹر سلطان زیب پشاور، ڈاکٹر زبیر احمد خان کوئٹہ، ڈاکٹر علی نذر لاہور، ڈاکٹر فرقان الحق کراچی، ڈاکٹر رابعہ طیب راولپنڈی، ڈاکٹر اکرم قریشی سیالکوٹ، ڈاکٹر پھاگ چند سنگھ نوشہرہ، ڈاکٹر شاہ ولی مستونگ، ڈاکٹر غزالہ ملتان، ڈاکٹر عمر دراز اوکاڑہ، ڈاکٹر نواز جامشورو، ڈاکٹر لطیف حیدر آباد، ڈاکٹر اعجاز لاہور، ڈاکٹر سکندر خوشاب، ڈاکٹر وسیم فیصل آباد، ڈاکٹر نصیر مانسہرہ، ڈاکٹر اخلاق کوٹلی، ڈاکٹر رضوان مظفر آباد اور دیگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ڈیوٹی کے دوران اس وائرس کا شکار ہوئے اور جان کی بازی ہار گئے۔
وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ 20 ہزار کے قریب ڈاکٹرز ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب نرسز ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی کے لیے یہ تعداد ناکافی ہے تاہم پھر بھی انہوں کرونا کی وبا کے دوران دن رات کام کیا، لیکن حکومت نے جان سے جانے والے میڈیکل سٹاف کو وہ درجہ نہیں دیا اور نہ ہی انہیں بعدازمرگ تمغے دیئے گئے۔
ہوتا تو یہ کہ حکومت کنونشن سینٹر میں تقریب کرتی اور کرونا کے دوران ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹرز کو ایوارڈ اور اسناد دیتی۔ ساتھ میں گورنر ہاؤس میں بھی تقریبات ہوتیں، ہر ہسپتال میں سٹاف کے لیے اسناد بھیجی جاتیں، ان کو ایک تنخوا بونس دی جاتی لیکن ڈاکٹرز، نرسز، میڈیکل سٹاف، فارما ویکسینیٹرز اور دیگر طبی عملے کو حکومت بھول گئی۔
این سی او سی کے مطابق 14 لاکھ 85 ہزار سے زائد لوگ کرونا سے شفایاب ہوگئے تو یہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کی کاوشوں سے ہی ممکن ہوا۔ کرونا ایک جنگ تھی۔ کم از کم پاکستان مونومنٹ پر ان کی تصاویر اور نام ہی آویزاں کردئے جائیں، جو ان کرونا واریئرز کو خراج تحسین پیش کریں، لیکن نہ ہی ڈاکٹرز اور نہ ہی میڈیکل سٹاف کا ڈیٹا کسی ویب سائٹ پر درج ہے۔ وزارت صحت کی ویب پر یہ تمام ڈیٹا تصاویر کے ساتھ اپ لوڈ کرکے انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹر فیصل سلطان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا: ’ہم اس چیز پر کام کر رہے ہیں کہ جن تمام افراد نے کرونا کے دوران کام کیا، انہیں ایوارڈز دیئے جائیں۔ جلد ہم اس کا اعلان کریں گے اور اس پر کام کیا جا رہا ہے۔‘
ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا: ’مختلف شعبہ جات میں کرونا کے دوران کام کرنے والوں کی خدمات کے عوض انہیں سپیشل تمغے دیئے جائیں گے۔‘
کرونا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کرونا کی مثبت شرح اس وقت کم ترین سطح پر چلی گئی ہے، جس سے کیسز کی تعداد اور ہسپتالوں پر لوڈ کم ہوا ہے اور امید ہے کہ صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔