پاکستان اکادمی ادبیات نے 2020 کے کمال فن ایوارڈ کے لیے اس بار دو نامور شخصیات کو چنا۔ ان شخصیات میں سرائیکی کے نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر اشو لال فقیر اور اردو کے نامور ادیب و سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ شامل ہیں۔
دونوں نامور شخصیات نے اس ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا۔
مستنصر حسین تارڑ نے فیس بک گروپ کے ذریعے اتوار کو اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے اس ایوارڈ کو قبول کر نے سے انکار کیا۔
ویڈیو میں مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’اس ایوارڈ کی 20، 21 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ اس ایوارڈ کو تقسیم کیا گیا۔ ورنہ ہمیشہ قانون اور قائدے کے تحت یہ ایوارڈ ایک ادیب کو دیا جاتا تھا چاہے وہ کسی بھی زبان کا ہو۔ جو روایت چلی آرہی ہے اس کی خلاف ورزی کیوں کی گئی؟‘
ویڈیو کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے قارئین کے سب سے زیادہ شکر گزار ہیں کیونکہ وہ انہیں ’آدھا ادیب نہیں مانتے بلکہ پورا ادیب مانتے ہیں۔‘
کمال فن ایوارڈ کے دوسرے نامزد ادیب و شاعر ڈاکٹر اشو لال فقیر نے چند روز قبل ہی اس ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشو لال کا کہنا تھا ’میرا ایک بیانیہ ہے کہ سٹیٹ خود خطرے سے دوچار ہے اسے بچانے کے لیے عملی طور پر کچھ ہونا چاہیے۔ ایوارڈ تو ایک معمولی سی چیز ہے۔ میں چالیس برس سے ادبی ایکٹیوازم کر رہا ہوں وہی میرا صلہ ہے۔‘
’میں ایسی ریاست، جو آرٹ کی دشمن ہے، ثقافت کی دشمن ہے، جو لوگوں کو رقص نہیں کرنے دیتی، جو لوگوں کو گانے نہیں دیتی، جو لوگوں کو اچھی شاعری نہیں پڑھنے دیتی، ایک فسطائی سٹیٹ ہے، اس سے میں کیسے یہ ایوارڈ لے سکتا ہوں؟‘
ان کا کہنا تھا ’یہ کیسے ممکن ہے کہ میں چند پیسوں کے لیے اپنے موقف یا اپنے بیانیے کوبیچ دوں؟ بدقسمتی سے ہماری سٹیٹ غلط بیانیے کی پیروی کر رہی ہے۔ مولوی عبدالحق سے لے کر نسیم حجازی کی داستان مجاہد سے لے کرارطغرل تک۔‘
’کیا یہ بیانیہ چل سکتا ہے؟ یہ تو حماقت والی بات ہے کہ آپ ریاست کو خیالات میں چلانا چاہتے ہیں کہیں ہوا میں چلانا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں تنوع ہے، اس میں بہت ساری زبانیں ہیں، مختلف ثقافتیں ہیں، آرٹ ہے اور ان تمام عناصر کوسٹیٹ اہمیت نہیں دے گی تو سٹیٹ کیسے زندہ رہے گی جب تک کہ مقامی لوگوں کی ثقافت، زبان کو اس کے تنوع کو سٹیٹ اہمیت نہیں دیتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان اکادمی ادبیات کو گزشتہ 20، 25 برس سے کوئی کتاب ہی نہیں بھیجی۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اکادمی ادبیات ایک ایسا ادارہ ہے جس کی سایسی طور پر حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
’یہ کوئی حقیقی یا غیر جانبدار ادارہ نہیں ہے جو واقعی آرٹ یا ادب کی خدمات پر آپ کو ایوارڈ دیتا ہو۔ یہاں لابنگ اور دیگر راستے ہیں جو اس ایوارڈ کی طرف جاتے ہیں۔ میں اس راستے پر نہیں چلنا چاہتا۔ یہ غلط ہے۔ میں اپنی مقامیت(Nativity) کے ساتھ ہوں۔ میرا دریا خطرے سے دوچار ہے، میرا صحرا خطرے سے دوچار ہے، ہماری عورت خطرے سے دوچار ہے ہماری ثقافت خطرے سے دوچار ہے۔ مسئلہ یہ ہے اور اس کے علاوہ بہت سے مسائل ہیں جو میرے تخلیقی ادب کا حصہ ہیں۔ میں نے اپنی Nativity کو بچانے کے لیے جو شاعری کی ہے جو کتابیں تحریر کی ہیں وہ میرا کام ہی میرا صلہ ہے۔ یہ ایوارڈز تو بہکانے والی باتیں ہیں۔‘
ڈاکٹر اشو لال نے بتایا کہ انہیں ایوارڈ ملنے سے پہلے کوئی خبر نہیں تھی بلکہ ان کو تو ان کے بیٹے نے بتایا کہ انہیں کوئی انعام دیا گیا ہے۔
اکادمی کیا کہتی ہے؟
دونوں مصنفوں کے ایوارڈ سے انکار پر جب انڈپینڈںٹ اردو نے پاکستان اکادمی ادبیات کے چئیرمین ڈاکٹر یوسف خشک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اکادمی ہر سال کمال فن ایوارڈ کا اعلان کرتی ہے۔ اس میں قانونی طریقہ کاریہ ہے کہ تمام صوبوں اور زبانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک جیوری بیٹھتی ہے۔ اس میں اکادمی کا کردار صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ جیوری مقررکرے۔‘
’جب جیوری مقرر ہو جاتی ہے تو اس کے بعد جیوری یا اس کی کمیٹی کے ساتھ اور ان کے فیصلے کے ساتھ اکادمی چئیر مین یا اس کے کسی سٹاف کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔‘
’ہر سال ایوارڈ یہ ایوارڈ ایک ادیب کو دیا جاتا ہے۔ اس برس جیوری نے فیصلہ کیا کہ 2020 کا ایوارڈ دو شخصیات جن میں مستنصر حسین تارڑ اور اشو لال کو دیا جائے۔ یہ جیوری کا فیصلہ تھا جو کہ ایک 20 رکنی کمیٹی تھی۔‘
’جیوری کی صدارت کشور ناہید کررہی تھیں۔ اس کے علاوہ اس میں اصغر ندیم سید، محمود شام، اظہار الحق، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، پروین ملک، ڈاکٹر ریاض مجید، حفیظ خان، محمد حمید شیخ، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی، ناصر علی سید، ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، ڈاکٹر ذوالفقار سیال، تاج جویو، ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر روبینہ شاہین، ڈاکٹر قاسم نسیم، حارث خلیق اور ڈاکٹر وحید بخش بزدار شامل تھے۔ ان کا اجلاس اڑھائی تین گھنٹے چلا اور ان کا فیصلہ لفافے میں بند تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب لفافے کو کھولا گیا تو اس میں دو شخصیات کا نام تھا جس کا جواز جیوری نے یہ دیا کہ نوبل پرائز میں بھی دو دو لوگوں کو ایوارڈ دیا جاتا ہے لہٰذا اس بار کمال فن ایوارڈ بھی دو شخصیات کو دیا جائے۔ ہم نے یہ فیصلہ میڈیا کے سامنے سنا دیا۔ فیصلہ سنانے کے بعد ہم نے دونوں نامور شخصیات کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا۔‘
ڈاکٹر یوسف خشک نے بتایا کہ اب تک دونوں نامور شخصیات کی جانب سے اکادمی کو تحریری طور پر ایوارڈ سے انکار نہیں بھیجا گیا لیکن میڈیا کے ذریعے اشو لال اور مستنصر حسین تارڑ نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ایوارڈ پر اعتراض کیا کہ یہ آدھا نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہیں انہوں نے ایوارڈ لینے سے انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب جب دونوں شخصیات ہمیں تحریری طور پر لکھیں گی کہ انہیں یہ ایوارڈ نہیں چاہیے تو اس کے بعددیکھا جائے گا کہ کیا کرنا ہے؟‘
ڈاکٹر یوسف خشک نے بتایا کہ اکادمی سے ایوارڈ لینے سے انکار تو پہلے شاید کسی نے نہیں کیا البتہ صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کی مثالیں ملتی ہیں۔
انکار کی صورت میں کیا ایوارڈ کسی اور کو دے دیا جائے گا؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر یوسف خشک نے بتایا کہ جب ایک مرتبہ ایوارڈ کا اعلان ہو جاتا ہے تو ایوارڈ تو اس شخص کا ہو گیا جس کے نام کا اعلان ہوتا ہے۔
اگر کوئی انکار کرتا ہے اور ان کا انکار تحریری طور پر ریکارڈ پر آجاتا ہے تو روایت یہی ہے کہ وہ ایوارڈ اسی کے نام ہی رہتا ہے اور پیسہ حکومت کو واپس چلا جاتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر دونوں کا تحریری جواب آجاتا ہے تو ہم دوبارہ جیوری کو غور کے لیے بھیج دیں گے۔
اشو لال کے اکادمی کے حوالے سے تحفظات پر چئیرمین پاکستان اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک کا کہنا تھا کہ اشو لال کا ایک اعتراض یہ تھا کہ انہوں نے کئی برسوں سے کوئی کتاب بھجوائی ہی نہیں تو یہ ایوارڈ ایک کتاب پر نہیں بلکہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے طور پر دیا جاتا ہے۔
باقی ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ جو بھی کہیں۔ اگر اکادمی کسی سیاسی ترجیحات پر کام کر رہی ہوتی تو وہ سامنے آتیں لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں تو ہم ان کے سامنے سر ہی جھکا سکتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے بڑے ہیں اور ہماری تربیت ایسے ہی ہوئی ہے۔‘