وفاق اور صوبہ بلوچستان میں تین سال اتحادی رہنے والی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ) کے درمیان اتحاد ٹوٹ جانے اور موجودہ صورتحال میں پیدا ہوجانے والی خلیج اب بڑھتی جا رہی ہے اور دونوں جماعتوں کے رہنما اب ایک دوسرے کے خلاف کھل کر بیانات بھی دے رہے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی نے عین اس وقت پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑا جب متحدہ حزب اختلاف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما ہمایوں خان بارکزئی سمجھتے ہیں کہ پوری قوم کو یہ علم ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے پی ٹی آئی کا ساتھ کیوں چھوڑا۔
ہمایوں بارکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم تین سال اتحادی رہے۔ اس دوران بلوچستان عوامی پارٹی کو پتہ نہیں چلا کہ یہ غلط ہے اور یہ صحیح ہے۔ لیکن جب عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے تو انہیں ایک دم سے احساس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن جو کہہ رہی ہے وہ درست ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے مبینہ عالمی سازش جو ایک خط کے ذریعے سامنے آئی وہ پوری قوم کو بتا دی ہے۔ باقی معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں ہے۔ اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ہمایوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں عام انتخابات میں ہماری کوشش ہوگی کہ اکثریت سے کامیاب ہوکر سامنے آئیں اور کسی اتحاد کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کےلیے ہم اپنے مخلص ساتھیوں کو ٹکٹ جاری کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انتخابات میں پہلے کوشش کریں گے کسی سے اتحاد نہ کریں لیکن سیاست میں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اگر بلوچستان عوامی پارٹی ساتھ نہیں تو ہم بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور جمیعت سے اتحاد کرسکتے ہیں۔‘
ادھر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی نصرااللہ زیرے باپ پر الزام لگاتے ہیں کہ ’وہ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس جماعت کو جو بھی اسٹیبلشمنٹ کہے گی وہ اس طرح کرے گی۔ ملک میں جو موجودہ سنگین بحران ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کی سلیکٹڈ حکومت ہے۔
نصراللہ زیرے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2018 میں جب انتخابات ہوئے تو اس وقت ملک کی تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں نے انتخابات کو مسترد کیا تھا اوراس حکومت کو مسلط شدہ حکومت کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چار سال گزرنے کے بعد عمران خان کی حکومت نے ملک کو ہر لحاظ سے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے۔ عوام نان شبینہ کے محتاج ہیں۔
نصراللہ کے بقول: جب جمہوری راستہ اختیار کرتے ہوئے متحدہ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تو آئین کے آرٹیکل پانچ کا سہارا لے کر تحریک کو مسترد کردیا گیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد تو تھا لیکن ان کے ساتھ اتحادیوں والا برتاؤ نہیں کیا گیا۔
ادھر شہریوں نے بھی باپ کے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد سے علیحدگی کے فیصلوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس جماعت کے فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں۔
ایک سماجی کارکن عبدالکریم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موجودہ سیاسی بحران سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کے لیے ایک بڑا فیصلہ ریکوڈک کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جس کو بلوچستان عوامی پارٹی مثبت قراردیتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جماعت حکمران جماعت سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے ہم کہتے ہیں ان کے فیصلے اپنے نہیں ہوتے اگر یہ خود فیصلے کرتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کی سمت درست یا غلط ہے۔‘
عبدالکریم سمجھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ہی سازشی تھیوریز کا آغاز ہوگیا تھا۔ کچھ سال ہم نے دیکھا کہ آصف زرداری کے دور میں میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا۔ جس کا بڑا زور و شور سے چرچا ہوا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتیں لگیں اور میڈٰیا میں اس کی خبریں آتی رہیں پھر سب کچھ تھم گیا۔ اب بھی جو عمران خان کی حکومت کے حوالے سے سازش کہا جارہا ہے۔ یہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔
کریم کہتے ہیں کہ ’ہوگا وہی جو پہلے سےہوتا آرہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ سرے سے کوئی سازش ہوئی ہے یا نہیں ہوئی۔ پاکستان میں ایسی چیزیں پہلے سے وجود رکھتی ہیں۔ مقتدر حلقے ان ہی سازشی تھیوریز کا سہارا لے کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے آئے ہیں۔‘
کتابوں کی دکان چلانے والے شہری عبدالغفار بلوچستان عوامی پارٹی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’حالات کے مطابق ان کا فیصلہ درست تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اس لیے ’میں سمجھتا ہوں بلوچستان عوامی پارٹی نے اچھا فیصلہ کرکے علیحدگی اختیار کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوراحمد سیاہ پاد ایک کاروباری شخصیت ہیں جو کہتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اس لیے اختیار کی کہ ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو پی ٹی آئی نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور عبدالقدوس بزنجو کو لایا گیا۔ جام کمال کو ہٹانے میں ان کا اہم کردار تھا۔
اب عبدالقدوس بزنجو کو جن مقاصد کے لیے لایا گیا تھا وہ پورے ہوگئے یا نہیں ہوئے اس لیے جام کمال انہیں ہٹانے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔
نوراحمد نے بتایا کہ چوں کہ باپ کی علیحدگی ان کے اپنے مفادات کی وجہ سے ہوئی اس لیے اس کو صحیح اور غلط بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہمیں نظر آ رہا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے اپنے خلاف خود سازش کی ہے۔ کوئی عالمی سازش نہیں ہوئی۔
نور احمد کے بقول: ان سے ایک غلطی ہوئی کہ انہوں نے آئین کے خلاف کام کر کے اس کو معطل کردیا ’یہ کہا جائے کہ آئین کو روند کر چلے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی مہذب ملک اپنے آئین کو سب سے اہم سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے خلاف کام کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ’اگر یہ کوئی قانونی طور پر فائدہ حاصل کرلیں تب بھی ان کو عوام کی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ملے گی۔‘
ادھر بلوچستان کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے اسلام آباد کے صحافی بلال ڈار سے جب تحریک عدم اعتماد کے دوران باپ کے تحفظات اور علیحدگی کے خبروں پر بات چیت کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ جماعت اب اپنے بدلے لے رہی اور جام کمال کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو عمران خان نے انہیں جواب دے دیا تھا۔