شمالی کوریا میں سرکاری ٹی وی کی سب سے مشہور اینکر ری چون ہی کئی دہائیوں سے اپنی پرجوش آواز میں بڑے واقعات کا اعلان کر چکی ہیں، جن میں جوہری اور میزائل تجربات سمیت ایک رہنما کی موت کا اعلان بھی شامل ہے۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ اینکر، جنہیں اپنے چمکدار روایتی کوریائی لباس کی وجہ سے بیرون ملک ’گلابی خاتون‘ کا نام دیا گیا ہے، جمعرات کو اس وقت شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں موضوع گفتگو بن گئیں جب ملک کے رہنما کم جونگ ان نے انہیں ایک عالیشان رہائش گاہ دی اور ان سے کہا کہ وہ ان کی حکمران ورکرز پارٹی کی آواز کے طور پر کام جاری رکھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم جونگ ان شمالی کوریا کی اشرافیہ کے ساتھ خصوصی برتاؤ کر کر رہے ہیں تاکہ ان کی وفاداری بڑھائی جا سکے، کیونکہ انہیں وبا، مشکل معاشی صورتحال اور امریکہ کے ساتھ جوہری سفارت کاری میں تعطل جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔
سرکاری کورین سینٹرل نیوز ایجنسی (کے سی این اے) کے مطابق کم جونگ ان نے کہا: ’یہ پارٹی کا خلوص ہے کہ وہ ان جیسے قومی اثاثوں کی خاطر سب کچھ کرے گی، جنہوں نے اپنی جوانی کے بعد سے 50 سال سے زائد عرصے تک پارٹی کے لیے انقلابی اناؤنسر کے طور پر کام کیا ہے۔‘
کم جونگ ان نے امید ظاہر کی کہ ’وہ پارٹی کے مناسب ترین ترجمان کے طور پر ہمیشہ کی طرح اچھی صحت کے ساتھ چاق و چوبند طریقے سے کام جاری رکھیں گی۔‘
کے سی این اے نے بتایا کہ کم جونگ ان نے دارالحکومت پیانگ یانگ میں دریا کے کنارے ایک نئے تعمیر شدہ رہائشی ضلع کا افتتاح کرنے کے بعد بدھ کو ری چون ہی سے ملاقات کی جو تقریباً 79 سال کی ہیں۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس ضلع میں مکانات ری چون ہی اور دیگر ایسے لوگوں کو دیے گئے جن کی ریاست کے لیے نمایاں خدمات ہیں۔
شمالی کوریا اکثر اہم سرکاری برسی کے موقع پر تعمیراتی منصوبوں کا افتتاح کرتا ہے۔ جمعے کو کم جونگ ان کے آنجہانی دادا اور ریاست کے بانی کم ایل سنگ کی 110 ویں سالگرہ ہے۔
یہ شمالی کوریا کی سب سے اہم برسی ہے کیونکہ 1948 میں قیام کے بعد سے کم خاندان کی تین نسلوں نے اس ملک پر حکومت کی ہے۔
نیا رہائشی علاقہ وہ جگہ ہے جہاں 1970 کی دہائی تک کم ایل سنگ کی سرکاری رہائش گاہ واقع تھی۔
پیانگ یانگ شمالی کوریا کا شوکیس شہر ہے اور یہاں کے رہائشی دور دراز دیہی علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً خوشحال زندگی گزارتے ہیں، جہاں بہت سے لوگ اب بھی غربت اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ شمالی کوریا کے لوگوں کی اکثریت جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک سے فرار ہو چکی ہے، چین کے ساتھ سرحد کے قریب اس کے شمالی علاقوں سے آئی ہے۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں قائم کوریا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سٹریٹیجی کے تجزیہ کار مون سیونگ موک نے کہا: ’جو لوگ کم جونگ ان کے وفادار رہے ہیں انہیں گھر دے کر وہ اپنی وفاداری اور اندرونی اتحاد کو مزید تقویت دینا چاہتے ہوں گے۔‘
ری چون ہی ایسے لوگوں کی ایک نمایاں مثال ہیں کیونکہ انہوں نے ان کے جوہری اور میزائل تجربات کا بھرپور پروپیگنڈا کیا ہے۔
کم جونگ ان نے ری چون ہی کے ساتھ ان کے گھر کا دورہ کیا اور سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کے سی این اے کے مطابق ری چون ہی نے کہا: ’انہیں لگتا ہے کہ ان کا نیا گھر ایک ہوٹل کی طرح ہے اور ان کے خاندان کے تمام افراد ’پارٹی کی مہربانی پر شکر گزاری کے آنسوؤں کے ساتھ ساری رات جاگتے رہے۔‘
ری چون ہی نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں سرکاری ٹی وی میں شمولیت اختیار کی، جب ملک میں ابھی تک کم ایل سنگ کی حکومت تھی اور وہ بتدریج ملک کی پروپیگنڈے سے چلنے والی خبروں کی نشریات پیش کرتی ہیں۔
تجزیہ کار مون سیونگ موک نے کہا کہ ری چون ہی کو کابینہ رکن کی سہولیات ملتی ہیں، وہ صحت مند نظر آتی ہیں اور توقع ہے کہ وہ کم از کم اگلے چند سالوں تک ٹیلی ویژن پر اہم اعلانات سے کرتی رہیں گی۔
ری چون ہی کا پرجوش اور مؤثر انداز بعض اوقات دوسرے ممالک میں ہنسی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ 2011 میں تائیوان کے ایک ٹی وی سٹیشن نے اس وقت معذرت کی جب اس کے ایک نیوز ریڈر نے ری چون ہی کے اس لہجے کی نقل اتاری جو انہوں نےکم کے والد کم جونگ ایل کی موت کا اعلان کرتے وقت استعمال کیا تھا۔
اپنے والد کی موت کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد 38 سالہ کم جونگ ان نے شمالی کوریا کی قیادت مکمل اختیار کے ساتھ کی ہے۔
لیکن بدانتظامی کی وجہ سے پہلے ہی خراب معیشت کو کرونا وائرس کے جھٹکے اور امریکی قیادت میں لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کے مشکل ترین دور کا سامنا کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ میزائل تجربات کا مقصد اسلحہ خانے میں اضافہ اور شمالی کوریا کو جوہری ریاست کے طور پر تسلیم کرنے اور بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا۔