عمر صفدر صاحب کا تعلق گجرات سے ہے۔ وہ ایک فیکٹری چلاتے ہیں۔ مشینیں بجلی پر چلتی ہیں ۔ ڈیزل اور پیٹرول بطور خام مال استعمال ہوتا ہے۔
دو سال پہلے ان کے پاس 35 ملازم تھے۔ منافع بھی اچھا ہو رہا تھا اور ملازمین کے گھروں کا چولہا بھی جل رہا تھا۔ لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ پچھلے چھ ماہ سے مسلسل نقصان ہو رہا ہے اور ملازمین کی تعداد صرف اٹھارہ رہ گئی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ مال بنانے کا خرچ بڑھ چکا ہے لیکن گاہک اضافی پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شاید عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ اسی پریشانی کی دوران انہوں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ حکومت نے بجلی کی قیمت میں چار روپے 85 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔
بجلی ماہ فروری کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی۔ جس کی وصولی ماہ اپریل کے بلوں میں کی جائے گی۔ یہ خبر عمر کے لیے پریشان کن تھی۔ انہیں امید تھی کہ نئی حکومت مہنگائی میں کمی لانے کے اپنے وعدوں پر عمل کرے گی جو کہ بجلی اور تیل کی قیمتیں کم کرنے سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ لیکن حالات توقع کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔
وہ سوچ رہے ہیں کہ اگر بجلی اور تیل کی قیمتیں کم نہ ہوئیں اور مزید تین ماہ اسی طرح گزارنے پڑے تو فیکٹری کو مکمل طور پر بند کرنا پڑ جائے گا۔ انہیں اپنی گاڑی بیچنا پڑے گی اور بچوں کو بھی پرائیویٹ سکول سے اٹھا کر سرکاری سکول میں داخل کروانا پڑے گا۔
انہیں اپنے ملازمین کی بھی فکر ہے کہ اگر ان کے گھر کے چولھے بند ہو گئے تو دو وقت کی روٹی کیسے کھائیں گے۔ ان کے بچے سکول کیسے جائیں گے اور ان کے بوڑھے ماں باپ کی دوائی کا بندوبست کیسے ہو گا۔
انہوں نے اپنی پریشانی کا ذکر ایک دوست سے کیا جو ایک ماہر معاشیات بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ اور مہنگے تیل کی ذمہ دار نئی حکومت نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔
گذشتہ 42 ماہ کی حکومت نے 25 مرتبہ سے زیادہ بجلی کی قیمتیں بڑھائی ہیں ۔ سال 2018 میں نو روپے فی یونٹ ملنے والی بجلی 2022 میں 25 روپے فی یونٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔ مئی 2018 میں 87 روپے 76 پیسے فی لیٹر ملنے والا پیٹرول اپریل 2022 میں 150 روپے فی لیٹر میں مل رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں سرفہرست ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے۔ مئی 2018 میں 115 روپے میں ملنے والا ڈالر آج 181 روپے میں مل رہا ہے۔
اس کے علاوہ روس اور یوکرین کی جنگ بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ لیکن اگر ڈالر کی قیمت کم ہوتی تو اس کا پاکستانی معیشت پر منفی اثر نہ پڑتا۔ ماضی میں بھی عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی تھیں۔
لیکن پاکستان میں اس وقت پیٹرول 110 روپے فی لیٹر سے تجاوز نہیں کیا تھا۔ آج بھی عالمی مارکیٹ میں قیمت 100 ڈالر فی بیرل کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں پیٹرول 150 روپے فی لیٹر میں مل رہا ہے۔ اگر ڈالر کی قیمت پر قابو پا لیا گیا تو ممکن ہے کہ بجلی اور پیٹرول سستا ہو جائے۔ لیکن اس کی امید کم دکھائی دیتی ہے۔
عمر صفدر سوچنے لگے کہ ڈالر کی قیمت پچھلے چار دنوں میں آٹھ روپے کم ہوئی ہے۔ اس حساب سے بجلی کی قیمتیں کم ہونی چاہیے تھیں لیکن یہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ سرکار کس اصول کے تحت بجلی کے بلوں میں اضافہ کر رہی ہے۔
مزید جاننے کے لیے کہ مستقبل میں بجلی اور تیل کی قیمتیں کم ہوں گی یا نہیں، عمر نے وزرات خزانہ میں ایک دوست سے رابطہ کیا۔ اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پچھلی حکومت میں وزیر خزانہ نے 28 فروری اور 31 مارچ کو تیل کی قیمتیں بڑھانے کو ناگزیر قرار دے دیا تھا۔ ایک مرتبہ تو اضافے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہو چکا تھا۔ جسے عین وقت پر واپس لے لیا گیا۔ نئی حکومت بھی پیٹرول کی قیمت بڑھانا چاہتی ہے۔
اپوزیشن اور عوامی ردعمل کے خوف سے نہیں بڑھا رہی۔ لیکن حکومت اسے زیادہ دیر تک روک نہیں پائے گی۔ ممکنہ طور پر پندرہ دن بعد اس میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔ اس وقت فی لیٹر پیٹرول کی قیمت150 روپے ہے۔ اس میں ٹیکسز شامل نہیں ہیں بلکہ قیمت خرید سے کم پر عوام کو دیا جا رہا ہے۔ اوگرا نے کل پیٹرول کی قیمت 171 روپے فی لیٹر مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔ جسے وزیراعظم صاحب کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ قیمت ٹیکسز کے علاوہ ہے۔ اگر ٹیکسز شامل کر لیے جائیں تو فی لیٹر پیٹرول 235 روپے تک مہنگا ہو جائے گا۔ اسی طرح ڈیزل کی قیمت 144 روپے ہے۔ اوگرا نے قیمت 195 روپے فی لیٹر تک اضافے کی تجویز کی تھا۔ جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس میں ٹیکسز کی قیمت شامل نہیں ہے۔ ٹیکسز ملا کر یہ قیمت 264 روپے فی لیٹر تک جا سکتی ہے۔ وہ بھی اگر ڈالر موجودہ قیمت پر برقرار رہے۔ اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تو پیٹرول اور ڈیزل 300 روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جاننے کے بعد عمر صفدر کی پریشانی مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کا سونامی آنے والا ہے۔ فیکٹری تو بند ہو گی لیکن گھر کا کچن چلانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ وہ سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں کہ کیوں نہ مشینیں بیچ کر یورپ کا ویزا اپلائی کر دوں۔ تا کہ اپنا بڑھاپا اور بچوں کا مستقبل بہتر گزر سکے۔ کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اسی دوران وہ اپنے کاروباری شراکت دار دوست کے گھر گیا جہاں دونوں نے ظفر پراچہ صاحب کو ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ ایک طرف حکومت پاکستان تقریبا 20 ارب ڈالرز کے کرنٹ اکاونٹ خسارے کی طرف بڑھنے کے خدشے کا اظہار کر رہی ہے۔ بجٹ خسارہ 5600 ارب ہے۔ 800 ارب روپے کے نقصانات ان کے علاوہ ہیں۔ جس میں ہیٹرولیم سبسڈی اور ایل این جی کے نقصانات وغیرہ شامل ہیں۔
تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر کو چھو رہا ہے۔ شرح سود ساڑھے بارہ فیصد تک بڑھا دی گئی ہے اور سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تقریبا 10 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں تقریبا دو ارب ڈالرز یا 373 ارب روپوں کی پیٹرولیم سبسڈی کس طرح ایفورڈ کی جا سکتی ہے۔ پوری دنیا میں اتنی سبسڈی کون سا ملک دے رہا ہے۔ اور ایسا ملک جو آئی ایم ایف کے پلان کے اندر ہو اسے اس طرح کے فیصلے زیب نہیں دیتے۔
اگر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم نہ کی تو پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت 373 ارب روپے کی سبسڈی کس طرح پوری کر رہی ہے۔ تقریبا ہر ہفتے 15 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ یہ رقم کہاں سے نکالی جا رہی ہے۔
کیا کسی ملک نے مدد کی ہے یا ایک مرتبہ پھر مہنگا قرضہ لیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ صحت، تعلیم اور خوراک کے بجٹ میں سے رقم نکال کر پیٹرولیم پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ کیونکہ ماضی میں حکومتیں ایسا کرتی آئی ہیں۔ پچھلے وزیراعظم نے تو یہ وجہ بتائی تھی کہ ایف بی آر کی ٹیکس آمدن بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ سبسڈی کی رقم اس میں سے نکالی گئی ہے۔
لیکن شوکت ترین صاحب مختلف دعوے کرتے دکھائی دیے۔ ان کے مطابق پیٹرولیم لیوی کی مد میں فنڈز موجود تھے جن میں سے یہ سبسڈی کی رقم پوری کی جا رہی ہے۔ سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خزانہ کے بیانات میں تضاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ ایسا ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔
عمر کے کاروباری دوست نے ظفر پراچہ صاحب کے موقف کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف صاحب کا ٹریک ریکارڈ بھی اس حوالے سے اچھا نہیں ہے۔ ماضی میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے فنڈز پورے کرنے کے لیے شہباز شریف صاحب نے صحت، تعلیم اور دیگر چھوٹے منصوبوں کو بند کر کے وسائل کا منہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی طرف موڑ دیا تھا۔ وہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ جس کے اثرات آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اورنج ٹرین کے بجٹ میں پنجاب کے تمام 35 اضلاع میں شوکت خانم جیسا ایک جدید ہسپتال بن سکتا تھا۔ ابھی بھی یہ اطلاعات ہیں کہ عوامی فلاح کے بہت سے منصوبے روک کر تیل پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جو کہ تشویش ناک ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ تا کہ عوام کے سامنے پورا سچ لایا جا سکے۔
سبسڈی کی یہ رقم نہ تو سرکار اپنی جیب سے ادا کر رہی ہے اور نہ ہی کسی ملک نے مفت میں تیل بھجوانا شروع کر دیا ہے۔ یہ عوام کا پیسہ ہے جسے ہر صورت میں عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کرنا ہے۔ لہذا عوامی پیسے کو ایسے منصوبوں پر خرچ کیے جانے کی ضرورت ہے جس کا فائدہ دیر پا ہو اور ملک کے لیے بھی معاشی طور پربہتر ہو۔ قریب کا فائدہ دیکھنے سے پہلے دور کا نقصان دیکھنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
عمر صفدر کا کہنا ہے کہ ان کے پارٹنر اور ظفر پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے۔ لیکن پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔ تا کہ مہنگائی کم ہو اور ان کا کاروبار بھی چل سکے۔
عمر کا کہنا ہے کہ میں تو اس وقت حکومتی معاشی پالیسیز کی کامیابی کا اعتراف کروں گا جب میرا کاروبار پھلنے پھولنے لگے گا۔ جو پالیسیز کاروبار کو نقصان پہنچائیں، روزگار کو ختم کریں اور مہنگائی میں اضافہ کریں انہیں فورا ختم کردیناچاہیے یا پھر کوئی درمیان کا راستہ نکالنا چاہیے جس سے عوام، حکومت اور کاروباری طبقہ مطمئن ہو سکے۔