پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا کے تین مارچ کو ہونے والے انتخابات کے بعد سینیٹ میں ایک دلچسپ صورت حال ابھر کر سامنے آنے والی ہے کیونکہ 11 مارچ کے بعد حکومت، اس کی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلاف کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد برابر ہونے کا امکان ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلی میں مختلف جماعتوں کے اراکین کی تعداد کی بنیاد پر اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کی حمایتی جماعتوں اور گروہوں کا سینیٹ انتخابات کے بعد مجموعی طور پر 50 نشستوں پر براجمان ہونے کا امکان ہے، جبکہ اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین کی مجموعی تعداد بھی اتنی ہی ہو سکتی ہے۔ سینیٹ میں اراکین کی مجموعی تعداد 104 ہے۔
11 مارچ کے بعد پاکستانی کے ایوان بالا میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی متوقع تعداد کو مندرجہ ذیل تصویر میں واضح کیا گیا ہے۔
سینیٹ میں تین جماعتیں، بلوچستان عوامی پارٹی، قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، حکمراں پاکستان تحریک انصاف کی حمایتی ہیں جبکہ سینیٹ کی حد تک آزاد اراکین کی حمایت بھی حکومتی اتحاد کو حاصل ہے۔
ایوان بالا میں حکومت مخالف جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این)، جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، نیشنل پارٹی (این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروب (پی ان پی ایم) پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی (جےآئی) شامل ہیں۔
11 مارچ کو سینیٹ کے 52 اراکین سبکدوش ہو رہے ہیں، تاہم سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے باعث خالی ہونے والی چار فاٹا کی نشستوں کے لیے انتخابات نہیں ہو رہے، اس لیے تین مارچ کو مجموعی طور پر 48 سینیٹرز کا انتخاب عمل میں آئے گا۔
حکومتی جماعتیں
پی ٹی آئی: اس وقت سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے کل 14 اراکین ہیں جن میں سے سات سبکدوش ہو رہے ہیں۔ تین مارچ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی 21 سیٹیں جیتنے کی امید ہے، جس کے بعد اس پارٹی کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 28 ہو جائے گی۔
بی اے پی: بلوچستان عوامی پارٹی کے اس وقت سینیٹ میں 10 اراکین ہیں جن میں سے تین سبکدوش ہو رہے ہیں، جبکہ بی اے پی تین مارچ کے انتخابات میں چھ نئے سینیٹرز کی کامیابی کی امید رکھتی ہے جس سے ان کے سینیٹ اراکین کی تعداد 13 ہو جائے گی جو موجودہ تعداد سے تین زیادہ ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایم کیو ایم پاکستان: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے پانچ میں سے چار سینیٹرز سبکدوش ہو رہے ہیں، جبکہ یہ جماعت تین مارچ کے انتخابات میں خیال ہے کہ صرف دو سینیٹرز لا پائے گی اور یوں اس کی طاقت سینیٹ میں پانچ سے کم ہو کر تین رہ جائے گی۔
جی ڈی اے: گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے لیے سینیٹ میں سندھ سے ایک نشست حاصل کرنے کی امید ہے جس سے اس کے سینیٹرز کی تعداد دو ہو جائے گی، جو موجودہ تعداد سے ایک زیادہ ہو گی۔
آزاد اراکین: اس وقت سینیٹ میں آٹھ آزاد اراکین ہیں، جن میں سے چار کی سبکدوشی کے بعد اتنے ہی ایوان بالا میں رہ جائیں گے۔
اب دیکھنا ہو گا کہ تین مارچ کے انتخابات میں کتنے مزید آزاد امیدوار سینیٹ میں آتے ہیں، تاہم ہم فی الحال ایوان میں رہ جانے والے چار آزاد اراکین کو ہی اپنے حساب کتاب میں شامل کریں گے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں
پیپلز پارٹی: پاکستان پیپلز پارٹی کے 21 میں سے آٹھ سینیٹرز سبکدوش ہونے جا رہے ہیں، جس کے بعد ایوان بالا میں اس پارٹی کے 13 اراکین رہ جائیں گے۔
تین مارچ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی چھ نشستیں جیت سکے گی جس سے سینیٹ میں گیارہ مارچ کے بعد اس کے سینیٹرز کی کل تعداد 19 ہو جائے گی، یعنی موجودہ سینیٹ سے دو اراکین کم۔
مسلم لیگ ن: ایوان بالا کی تنظیم نو میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان مسلم لیگ ن کو ہو گا کیونکہ اس کے 29 سینیٹرز میں سے آدھے سے زیادہ (17) سبکدوش ہو رہے ہیں۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس پی ایم ایل این کے اراکین کی تعداد کے حساب سے تین مارچ کے انتخابات میں اسے پانچ نشستیں حاصل ہو سکیں گی، جس سے سینیٹ میں اس کی قوت 17 رہ جائے گی۔
جے یو آئی ایف: جمیعت علما اسلام اس وقت سینیٹ میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ایک ایک سنیٹیرز ہیں، جو 11 مارچ کو سبکدوش ہونے جا رہے ہیں۔
امید کی جا رہی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی دو نئی سیٹیں جیت لے گی، یوں اس جماعت کی پوزیشن نئی سینیٹ میں برقرار رہے گی۔
انتخابات کے بعد سینیٹ میں نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اراکین کی تعداد دو دو ہونے کے امکانات ہیں، جبکہ جماعت اسلامی، مرکزی امیر سراج الحق کی سبکدوشی کے بعد صرف ایک رکن کے ساتھ رہ جائے گی۔
سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کی حتمی صورت حال انتخابات کے بعد ہی پتہ لگ پائے گی تاہم سیاسی تجزیہ کار اور ماہرین پارٹیوں کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد کی بنیاد پر حساب لگا رہے ہیں۔
سینیٹ انتخابات میں قومی اور چار اسمبلیوں کے اراکین ووٹ ڈالتے ہیں، اس لیے اگر تمام اراکین اپنی اپنی جماعتوں کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دیں تو آنے والے سینیٹ الیکشنز کے نتائج سے متعلق اندازہ لگانا کافی آسان ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ سینیٹ انتخابات سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ (ایس ٹی وی) کی بنیاد پر منعقد ہوتے ہیں، جس میں ووٹر بیلٹ پیپر میں اپنی ترجیحات بتاتا اور پہلی ترجیح والے امیدوار کی کامیابی کی صورت میں باقی ووٹ اگلے امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ مطلوبہ امیدواروں کے کامیاب ہونے تک جاری رہتا ہے۔
ایس ٹی وی کے نظام کے باعث بھی سینیٹ انتخابات اکثر سیاسی جماعتوں کے اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد سے مختلف ہوتے ہیں، بعض اوقات کم اراکین والی جماعت کے لیے زیادہ سینیٹرز منتخب کروانا ممکن ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے اپنی پارٹی کی حکمت عملی کے برعکس ووٹ دیے جس کی وجہ سے کم اراکین کی جماعتیں بھی سینیٹ میں اپنے زیادہ نمائندے منتخب کروانے میں کامیاب رہی، اس لیے انتخابات اور حتمی نتائج سے قبل لگائے جانے والے اندازے اور حساب کتاب غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کی نشستوں میں فرق اس لیے بھی آسکتا ہے کیونکہ ہر جماعت اسمبلیوں میں کسی نہ کسی اتحاد کا حصہ ہے اور اتحادیوں کے ساتھ کچھ لے کچھ دے کی بنیاد پر لین دین بھی ہو گی۔
سینیٹ میں چاروں صوبوں سے 23، سابق قبائلی علاقوں سے آٹھ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے چار اراکین شامل ہیں۔ ہر صوبے کے لیے مختص 23 نشستوں میں 14 جنرل، چار خواتین، چار ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کے علاوہ ایک سیٹ اقلیتیوں کے لیے مختص ہے۔
ایوان بالا میں 3 مارچ کے بعد کی صورت حال سے تحریک انصاف کو ایک واضح فائدہ قانون سازی میں اسے اب قدرے آسانی ہوگی۔
کاغذات نامزدگی
ادھر سینٹ انتخابات کے لیے کل 170 امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ کمیشن کے مطابق عام نشستوں کے لیے 87امیدواروں نے ٹیکنوکریٹس اور علما کی نشستوں کے لیے 33، خواتین کے لیے 40 اور غیرمسلموں کی نشستوں کے لیے 10 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
کمیشن نے کہا کہ پنجاب سے 29امیدواروں کے، سندھ سے 39، خیبرپختونخوا سے 51، بلوچستان سے 41 اور وفاقی دارالحکومت سے دس امیدواروں کے کاغذات نامزدگی موصول ہوئے ہیں۔