ان دنوں فرانسیسی کوپرنیکس برانڈ کی طرف سے ڈیزائن اور تیار کردہ شیشے کے بیگ کے ساتھ مشہور شخصیات جیسے کہ ریحانہ، ہیلی بیبر اور حدید سسٹرز ریڈ کارپٹ پر نمودار ہوتی ہیں۔
کوپرنیکس شاید اپنے سوائپ ہینڈبیگز کے لیے مشہور ہے: لمبے لمبے بیضوی بٹوے جو ڈیزائنرز کہتے ہیں کہ آئی فونز کی ’سکرین پر اپنی انگلی سوائپ کرنے‘ جیسی خصوصیت سے متاثر ہیں۔ لیکن اگر ہم اس تھیلے کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ہم اسے ایسٹر انڈوں سے مشابہ پا سکتے ہیں جو صرف سائز میں بڑے ہوتے ہیں۔
اس قسم کے بیگز کے ڈیزائنرز اور بنانے والوں کے مطابق اسے بنانے کا عمل آسان نہیں ہے: شیشے کی موٹائی کی وجہ سے اسے بنانے کے لیے ہوا کا دباؤ استعمال کیا جاتا ہے اور تھیلے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے عادت یا مشق ضروری ہے۔ بلاشبہ، ان تھیلوں میں صرف ایک یا دو چھوٹی چیزوں کو ہی رکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں بات یہ ہے کہ انہیں زیورات اور آرٹ کے طور پر زیادہ استعمال کرنا ہے۔
مارکیٹ میں ان نازک بیگز کی فروخت کم و بیش شروع ہوچکی ہے اور ان کی قیمت پانچ سو ڈالرز سے زیادہ ہے۔ ایک لمحے میں آپ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں آپ کو ریڈ کارپٹ پر صرف چند مشہور شخصیات کے ہاتھوں میں اس قسم کا بیگ نظر آتا ہے، اور اگلے ہی لمحے آپ ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہر ایک کے ہاتھ میں اس بیگ کا ماڈل ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوپرنیکس 2022 کے موسم سرما کے فیشن شو میں ہم نے فلسطینی نژاد ڈچ ماڈل جیجی حدید کو اس بیگ کے ساتھ دیکھا تھا۔ بعد ازاں اس سال کے گریمی میں جو اپریل کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوا، ریڈ کارپٹ پر دو ستاروں کو کوپرنیکس کے بیگز کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک امریکی گلوکار اور ریپر ڈوجا کیٹ تھیں جن کے پاس نیلے شیشے کا بیگ تھا اور دوسرا امریکی گلوکار، نغمہ نگار، اور ڈانسر تیناشی کے پاس سرخ رنگ میں تھا۔
کائلی جینر نے کارڈیشینز کے کولیکشن سے متعلق ایک پریس کانفرنس میں اسی طرز کے بیگ کے ساتھ شرکت کی جس میں واضح طور پر اندر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک کائلی کی کس برانڈ کی لپ سٹک تھی۔
یہ بیگ اس بنیادی مقصد کو بدل دیتے ہیں جس کے لیے یہ تھیلا اصل میں بنایا گیا تھا۔ ضروری چیزیں اب چھپائی نہیں جا سکتیں ہیں۔ نہ اب ٹشو پیپر اور نہ کوئی رسیدیں رکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے بجائے کوپرنیکس جو کرتا ہے وہ ڈسپلے کے لیے ایک فریم فراہم کرتا ہے یعنی میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ ڈسپلے اور پروموشن کے لیے ہے۔