ترکی کے ساحل پر شامی پناہ گزین بچے ایلان کی اوندھے منہ پڑی لاش نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا تاہم اس معصوم بچے کا لاشہ بھی پناہ گزینوں کی مشکلات میں کمی نہیں لا سکا۔ اب امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر واقع دریائے ریو گرینڈے کے پانیوں پر تیرتی ایک باپ اور اس کی دو سال سے بھی کم عمر بیٹی کی لاشوں نے اس مسٔلے کی سنگینی کو پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔
آسکر البرٹو میرٹنیز ریمریز اور اس کی 23 ماہ کی بیٹی بہتر مستقبل کے لیے امریکہ کی سرحد پار کرنے کی کوشش میں دریائے ریو گرینڈے میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے لیکن ان کی لاشوں کی تصویر نے میکسیکو اور امریکہ میں غصے کی لہر دوڑا دی۔
میکسیکو کے اخبار ’لا جورنیڈا‘ کے مطابق ریمریز اپنی بیٹی ویلیریا کے ساتھ گذشتہ اتوار کو دریا عبور کر کے امریکہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 26 سالہ ریمریز اپنی اپنی بیٹی کو امریکہ کی جانب دریا کے کنارے پہنچا کر واپس اپنی بیوی کو لینے کے مڑے ہی تھے۔ جب ان کی بیٹی نے گھبرا کے ان پر چھلانک لگا دی۔ اس دوران پانی کی ایک تیز لہر باپ بیٹی کو بہا کر لے گئی۔
سسکیوں اور آہوں کے ساتھ ریمریز کی اہلیہ نے پولیس کو اس واقعے کی اطلاع دی۔
اس خاندان کا تعلق وسطی امریکہ کے ملک ایل سلواڈور سے ہے جو 3 اپریل کو اپنا گھر چھوڑ کر میکسیکو میں گوئٹے مالا کی سرحد کے قریب دو ماہ تک قیام پذیر رہا۔
خود کو امریکہ کے سرحدی حکام کے حوالے کرنے اور پناہ کی باضابطہ درخواست دینے میں ناکام رہنے کے بعد اس پریشان حال خاندان نے تیر کر دریا پار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
میکسیکو کے حکام کے مطابق اس بدقسمت خاندان نے اتوار کو ماتاموروس میں قائم امریکی قونصل خانے کا دورہ کیا تھا۔
امریکہ میں پناہ کی درخواست پر غور کے لیے مہینوں اور سال لگ جاتے ہیں۔ میکسیکو کے حکام اس حوالے سے لاعلم ہیں کہ امریکی قونصل خانے نے ان کو کیا جواب دیا تھا تاہم ریمریز نے اسی روز اپنے خاندان کے ساتھ دریا عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایل سلواڈور میں موجود ریمریز کی ماں، جنہوں نے اپنی بہو سے فون پر بات کی تھی، کا کہنا ہے ان کے بیٹے نے اپنی ننھی بچی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اُسے اپنی شرٹ میں گُھسا لیا تھا لیکن وہ منجدھار میں پھنستے ہی چلے گئے۔
’میں نے ان کی منتیں کی کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں لیکن وہ رقم جمع کر کے اپنا گھر بنانا چاہتا تھا۔ وہ وہاں [امریکہ میں] چند سال کام کر کے گھر کی تعمیر کے لیے پیسے کمانے کی امید پر گیا تھا۔‘
ریمریز اور ان کی بیٹی کی لاشوں کی دل خراش تصویر میکسیکو کی فوٹوگرافر جولیا لی ڈیوک نے کھنچی تھی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے چھوٹی سی بچی اپنے والد کی شرٹ میں انہیں پکڑے ہوئے ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے اس تصویر کو شائع کرنے کا مقصد امریکہ میں پناہ گزینوں کے المیے کو دنیا کے سامنے لانا ہے جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں ان خاندانوں کو اپنی جانوں کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے جو بہتر اور روشن مستقبل کے لیے امریکہ داخل ہونے کوشش کرتے ہیں۔
میکسیکو کے اخبارات اس تصویر کا تقابل ترکی کے ساحل پر ملنے والی ایلان کُردی کی لاش سے کر رہے ہیں۔ بحیرہ روم میں کشتیوں کے الٹنے کے واقعات میں ہزاروں پناہ گزین ہلاک ہو چکے ہیں۔
میکسیکو کے صدر اینڈرس مینول لوپیز آوبریڈور نے اس واقعہ پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہے۔
’یہ نہایت قابل افسوس واقعہ ہے۔ ہم امریکہ کی جانب سے پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کی مذمت کرتے ہیں جس کے باعث پناہ گزین صحرا یا دریا عبور کرتے ہوئے موت کا شکار بن جاتے ہیں۔‘
میکسیکو نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ان تارکین وطن کے بحران پر کام کرنے کی کوشش کی ہے جو وسطی امریکہ میں بدامنی اور تشدد سے بچنے کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی کے باعث بہت کم تارکین وطن کو پناہ کی درخواست دائر کرنے کی اجازت دی جارہی ہے اور اس میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک میں امیگریشن پالیسی کے حوالے سے سینئر تجزیہ کار کرس رامون کا کہنا ہے کہ ’زیادہ سخت پالیسیوں اور پابندیوں کے باعث ہم میکسیکو یا امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی جانب سے زیادہ خطرناک اقدامات دیکھ سکتے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ خود تارکین وطن کے لیے نامناسب اصطلاحات ’جانور‘، ’کولڈ سٹون کریمینلز‘ اور ’برے لوگ‘ جیسے الفاظ کا استعمال کر چکے ہیں۔
2020 میں ہونے والےصدارتی انتخابات میں ٹرمپ کا مقابلہ کرنے والے ممکنہ ڈیموکریٹک امیدواروں نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بیٹو او رورکے نے کہا کہ ’ٹرمپ ان کی موت کے لیے ذمہ دار ہیں‘ جبکہ بُکر کورے نے صدرٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر انسانی اور غیر اخلاقی امیگریشن پالیسی کے نتائج ہیں۔ یہ سب ہمارے نام پر کیا جا رہا ہے۔‘
کمیلا ہیرس نے کہا: ’یہ غیر انسانی ہے۔ بچے مر رہے ہیں۔ یہ ہمارے اخلاقی ضمیر پر ایک داغ ہے۔‘
صرف 2018 میں 283 مہاجرین امریکہ داخلے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس واقعے پر کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا گیا۔