یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
کچھ دن پہلے جب برطانیہ میں مقیم میری دوست ڈاکٹر ارم اشرف نے مجھ سے چین کے حالات کے بارے میں پوچھا تو مجھے ان کا وہ سوال کافی عجیب سا لگا تھا کیوں کہ میرے اردگرد سب نارمل تھا۔
انہوں نے شنگھائی میں نافذ لاک ڈاؤن کے بارے میں خبریں دیکھی تھیں اور اسی تناظر میں مجھ سے میری طرف کے حالات کا پوچھ رہی تھیں۔
چین نے اپریل کے آغاز میں شنگھائی میں لاک ڈاؤن لگانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد وہاں بیشتر ریستوران بند ہو گئے، آن لائن ڈیلیوری کا سلسلہ رک گیا تھا اور لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا ممنوع ہو گیا تھا۔ جس کے پاس جو موجود تھا وہ اسی کے سہارے اپنے دن اور رات کاٹنے پر مجبور تھا۔
پھر سننے میں آیا کہ لوگوں کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو رہا ہے، ایک ہی عمارت میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ چیزوں کا تبادلہ کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔
میں اسی دن گروسری کر کے آئی تھی۔ میرے فریج میں مختلف طرح کے پھل اور سبزیاں اور فریزر میں گوشت رکھا ہوا تھا۔ فریج کے ساتھ پڑی الماری میں دالیں، آٹا، اور مصالحہ جات بھی موجود تھے۔
میں نے جس بازار سے خریداری کی تھی وہاں اس دن معمول کی بھیڑ تھی۔ اشیا کی قیمتیں بھی مناسب تھیں۔
میں نے انہیں کہا کہ یہاں تو سب نارمل ہے۔ شاید شنگھائی میں کچھ الگ ہو رہا ہو۔ بیجنگ تو ٹھیک لگ رہا ہے۔
اتوار آیا تو ویک اینڈ منانے بیجنگ کے مرکز ’سان لی تُن‘ چلی گئی۔ وہاں کی رونق بھی پہلے جیسی تھی۔ ریستوران اور کافی کی دکانیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ مالز کے اندر بھی وہی گہما گہمی تھی۔
کرونا کی عالمی وبا کے آغاز سے ہی چین میں عوامی جگہوں پر ہیلتھ کوڈ دکھانے کے بعد داخلہ ملتا ہے۔ ماسک کی پابندی بھی لازمی ہے۔ سماجی دوری کے اصول بھی رائج ہیں لیکن لوگ ان پر کم ہی عمل کرتے ہیں۔ ویسے بھی چین میں لوگ ہی اتنے ہیں کہ سماجی دوری چاہنے کے باوجود اپنائی نہیں جا سکتی۔
اتوار کی دوپہر تک نارمل محسوس ہونے والا بیجنگ شام کو اس وقت نارمل لگنا بند ہو گیا جب یونیورسٹی کی طرف سے کہا گیا کہ کل صبح تمام طالب علم یونیورسٹی کے ہسپتال جا کر لازمی کرونا ٹیسٹ کروائیں۔ یہ لازمی ٹیسٹ تھا۔ اس سے پہلے ہمیں ہر ہفتے ٹیسٹ کروانے کا کہا گیا تھا۔
چینی حکومت اس ہفتے بیجنگ کے علاقے چھاؤیانگ کے 35 لاکھ رہائشیوں کے تین کرونا ٹیسٹ کر رہی ہے۔ سوموار کو ہونے والا ٹیسٹ اس سلسلے کا پہلا ٹیسٹ تھا۔ دوسرا ٹیسٹ آج ہو رہا ہے جبکہ تیسرا ٹیسٹ جمعے کو ہو گا۔
بیجنگ کے رہائشی آنے والے دنوں میں بیجنگ میں شنگھائی جیسے لاک ڈاؤن کی توقع کر رہے ہیں۔ بیجنگ کے مختلف حصوں سے بازاروں اور شاپنگ مالز میں اشیائے خوردونوش کے ختم ہونے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
میرا ایک بھارتی دوست جو بیجنگ کی تحصیل ہائی دیان میں مقیم ہے، ویک اینڈ پر انڈے اور بریڈ خریدنے کے لیے بازار گیا تھا۔ وہ اس دن تین گھنٹے اپنے علاقے کی مختلف سپر مارکیٹس اور دکانوں میں انڈے ہی ڈھونڈتا رہا تھا، پھر اسے ایک جگہ آلو، پیاز اور ٹماٹر نظر آئے۔ وہ وہی لے کر گھر آ گیا۔
مجھے پتہ چلا تو میں نے ہنس کر کہا، ’چلو اسی بہانے تمہارے اپارٹمنٹ کا چولہا بھی آگ دیکھے گا!‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی دوست نے بتایا کہ آن لائن ایپس پر بھی کچھ دستیاب نہیں ہے۔ اس نے اپنے فون سے ان ایپس پر سکرول کرتے ہوئے ایک ویڈیو بھی بنا کر بھیجی۔
میں نے اپنے فون پر ایپ کھولی تو وہاں بھی کچھ دستیاب نہیں تھا۔ نہ پھل، نہ سبزیاں، نہ گوشت، نہ انڈے۔ سب کچھ ختم تھا۔
کل یونیورسٹی کے قریب ایک سپر مارکیٹ گئی تو وہاں سب کچھ دستیاب تھا۔ میں نے اپنی ضرورت کی اشیا خریدیں اور واپس آ گئی۔
بیجنگ کے رہائشی شنگھائی میں نافذ سخت لاک ڈاؤن اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکل صورت حال کے خوف سے ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ کرونا کی عالمی وبا کے آغاز کے بعد سے بیجنگ میں پہلی بار ایسے حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
لوگوں میں کرونا کا ڈر ویکسین کی تین خوراکیں لگوانے کے بعد کم ہو چکا ہے، تاہم حکومتی پالیسیاں جو کبھی بھی تبدیل ہو جاتی ہیں، انہیں گھبرانے پر مجبور کر رہی ہیں۔
چین میں ٹویٹر کے متبادل ویبو پر ایک ہیش ٹیگ کیا بیجنگ کے رہائشیوں کے لیے ذخیرہ اندوزی کی حالت میں آنا لازمی ہے، ٹرینڈ کر رہا ہے۔ لوگ اس ہیش ٹیگ کا استعمال کر کے دوسروں کو چینی حکومت پر یقین کرنے اور بس ضرورت کی اشیا خریدنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
دوسری طرف کچھ صارفین لوگوں کو ضرورت کی اشیا خریدنے کا بھی کہہ رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ بارش سے پہلے اس سے بچاؤ کی تیار کرنا بہتر ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ آنے والے دنوں میں ممکنہ لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر وہ اپنی ضرورت کی اشیا جیسا کہ چاول، آٹا، نوڈلز، سویا ساس، سرکہ، تیل، انڈے، سبزیاں اور گوشت خرید لیں تاکہ لاک ڈاؤن لگنے کی صورت میں وہ خوراک کی کمی کا شکار نہ ہوں۔