امریکی کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے ارکان اس انکشاف کے بعد بائیڈن انتظامیہ سے جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے دوران امریکہ کی طرف سے پیچھے چھوڑ دیا گیا بائیو میٹرک ڈیٹا طالبان ملک میں ابھی تک پھنسے ہوئے امریکی اتحادیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
واشنگٹن فری بیکن کی رپورٹ کے مطابق کانگریس کے ارکان کا خیال ہے کہ طالبان حکومت اس ڈیٹا کو سابق سکیورٹی فورسز اور امریکی اور نیٹو افواج کے مقامی افغان اتحادیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
تاہم افغان وزارت داخلہ نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔
واشنگٹن فری بیکن نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی کے آٹھ ری پبلکن ممبران، جن کی قیادت سینیٹر مارشا بلیک برن کر رہی ہیں، ریاستی اور دفاعی محکموں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق معلومات فراہم کریں۔
ان سینیٹرز نے ایک مکتوب میں لکھا، جس کی کاپی واشنگٹن فری بیکن کے پاس بھی ہے، کہ ’امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑ دیے گئے ان سسٹمز میں آنکھوں کا سکین، فنگر پرنٹس، تصاویر، پیشہ ورانہ ڈیٹا، گھر کے پتے اور رشتہ داروں کے نام شامل تھے۔ طالبان اس ذاتی معلومات کو امریکہ کی مدد کرنے والے افغانوں کی ٹارگٹ کلنگ، تشدد اور جبری گمشدگیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘
اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع نے ایک خط میں کہا تھا کہ امریکی فوجیوں نے افغانستان میں چار ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان پیچھے چھوڑا ہے۔
امریکی خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیر نو سیگار نے کہا تھا کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے وقت افغانستان میں چار ارب ڈالر سے زائد مالیت کا فوجی سازوسامان پیچھے رہ گیا تھا۔
امریکی کانگریس کو اپنی تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ میں سیگار نے کہا ہے کہ محکمہ دفاع کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر، سیگار نے کہا ہے کہ کچھ آلات ناقابل استعمال اور خراب حالت میں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکہ نے گذشتہ پانچ سالوں میں افغان نیشنل آرمی کے لیے سازوسامان پر کچھ میڈیا اداروں کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ 80 ارب ڈالر خرچ کیے بلکہ کہا کہ تقریباً 4.5 ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔
افغان چینل طلوع نیوز نے ایک سابق فوجی حکمت اللہ حکمت کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ بائیو میٹرک سسٹم پڑوسی ممالک یا دیگر کو فراہم نہیں کیا جانا چاہیے۔ (افغان) حکومت اس خفیہ اور اہم قومی ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ دار ہے۔‘
ایک دوسرے سابق فوجی اہلکار اسد اللہ ندیم نے کہا، ’یہ افغانستان کے سکیورٹی نظام کے لیے حتیٰ کہ ان کی (اسلامی امارت) حکومت کے لیے بھی خطرات کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ اگر ان کی کمان میں کچھ گروپ ان کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو وہ اس ڈیٹا کو طالبان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔‘
وزارت داخلہ نے تصدیق کی کہ اس کے پاس بائیو میٹرک آلات تک رسائی ہے لیکن اس سے انکار کیا کہ وہ سابق فوجی اور سویلین اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے معلومات کا استعمال کر رہی ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان ابو نافع تکور نے کہا: ’ہم نے کئی بار اس دعوے کی تردید کی ہے کہ امارت اسلامیہ اس کے ذریعے سابق سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے یا دھمکی دے رہی ہے۔ ہم اس کی تردید کرتے ہیں۔‘
اس سے قبل ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ غیرملکی فوجیوں کی جانب سے چھوڑے گئے بائیو میٹرک ڈیٹا نے بہت سے افغانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا تاہم موجودہ افغان حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔