بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش کے ضلع حمیرپور میں حکام نے ایک ہندو ہیڈ ماسٹر کو سکول کی عمارت پر ہرا رنگ کروا کر اسے شکل و صورت میں ’مدرسے جیسا بنانے کے جرم‘ میں معطل کر دیا۔
ضلع حمیرپور کی تحصیل سریلا کے بھیڑی ڈانڈا نامی گاؤں میں تعمیر کی جانے والی پرائمری سکول کی عمارت پر حال ہی میں ہیڈ ماسٹر برجیش گوتھم نے ہرا رنگ کروایا تھا۔
گذشتہ روز جب کچھ مقامی افراد نے اس پر اعتراض کیا تو حکام نے نہ صرف ہیڈ ماسٹر کو معطل کر دیا بلکہ عمارت پر ہرے کی جگہ سفید رنگ کروا دیا۔
بھارت کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والے ہندی اخبار ’دینک جاگرن‘ نے لکھا: ’ہیڈ ماسٹر برجیش گوتھم نے حال ہی میں سکول کی عمارت کو ہرے رنگ سے پینٹ کروا دیا تھا۔
’سکول کی عمارت کو ہرا دیکھ کر گاؤں کے کچھ لوگوں نے شدید اعتراض ظاہر کیا۔ انہوں نے ہیڈ ماسٹر پر سازش کے تحت سکول کو مدرسے جیسا بنانے کا الزام لگایا۔ ساتھ ہی لوگوں (ہندوؤں) کو مذہبی رسومات سے دور رہنے پر اکسانے کا بھی الزام لگایا۔
’ضلع مجسٹریٹ حمیرپور ڈاکٹر چندر بھوشن ترپاٹھی کی طرف سے تحقیقات کے احکامات جاری ہونے کے بعد بیسک شکشا ادھیکاری کلپنا جیسوال نے مذکورہ ہیڈ ماسٹر کو معطل کر دیا نیز سکول کی عمارت پر سفید رنگ کروا دیا۔‘
اخبار نے گاؤں کے کچھ مکینوں کے حوالے سے الزام عائد کیا کہ ’سکول میں تعینات ہیڈ ماسٹر برجیش گوتھم ایک مخصوص نظریے سے متاثر ہیں اور وہ لوگوں کو مذہبی عقائد و رسومات سے دور رہنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔
’انہوں نے جان بوجھ کر سکول کو ہرا رنگ کروا کر مدرسے کی شکل دینے کی گھناؤنی کوشش کی ہے جو کہ غلط ہے۔‘
انگریزی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے لکھا کہ بھیڑی ڈانڈا گاؤں کے مکینوں نے سوموار کو سکول کی عمارت کو ہرا رنگ میں دیکھ کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
اس نے مظاہرین کے حوالے سے لکھا: ’ہیڈ ماسٹر نے جان بوجھ اس پر ہرا رنگ کروایا۔ اب یہ ایک مدرسہ نظر آ رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پر سفید رنگ کروایا جائے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر ضلع مجسٹریٹ حمیرپور ڈاکٹر چندر بھوشن ترپاٹھی اور بیسک شکشا ادھیکاری کلپنا جیسوال سے رابطہ کی کئی کوششیں کیں لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی فون نہیں اٹھایا۔
واضح رہے کہ بھارتی سیاست میں مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ہرے رنگ کو مسلمانوں یا پاکستان اور بھگوا یا زعفرانی رنگ کو ہندوؤں سے منسوب کیا جا رہا ہے۔
چوں کہ اتر پردیش کی کمان ہر وقت بھگوا لباس میں ملبوس رہنے والے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھوں میں ہے لہٰذا یہاں ’ہرے اور بھگوا رنگوں کا کھیل‘ زیادہ ہی چلتا ہے۔
ہرے رنگ سے دشمنی
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شمس الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کسی رنگ کو کسی مخصوص مذہب کے ساتھ جوڑنا ٹھیک نہیں۔
’ہرا رنگ خوشحالی کی نشانی ہے۔ اگر انہیں ہرے رنگ سے اتنی ہی دشمنی ہے تو انہیں تمام درخت اور پیڑ پودے کٹوانے پڑیں گے۔ ملک کو ریگستان بنانا پڑے گا جو وہ بنانا چاہ رہے ہیں۔ بھارت کے ترنگے سے ہرا رنگ ہٹانا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ لوگوں سے نہیں کہیں گے کہ تلسی اور پیپل کے پتے، جن کو ہم پوجتے ہیں، وہ بھی ہرے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہیں گے کہ جب تک ہرا رنگ ہے تب تک یہ دنیا باقی ہے۔
ڈاکٹر شمس الاسلام نے بتایا کہ اسی اتر پردیش میں ایک نجی سکول کی مسلمان خاتون پرنسپل پر اس وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا کہ انہوں نے طلبہ کو ’عید کے کپڑوں‘ میں ویڈیو ریکارڈ کرنے کو کہا تھا۔
’الہ آباد کے ایک نجی سکول کی پرنسپل ڈاکٹر بشریٰ مصطفیٰ نے طلبہ کو غیر نصابی سرگرمی کے طور پر عید کے کپڑوں میں عید کی مبارک بادی کی ویڈیوز ریکارڈ کرنے کو کہا تھا۔
’اس بنا پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ وہ دیوالی اور ہولی کے تہواروں کے موقعوں پر بھی بچوں کو ویڈیوز ریکارڈ کرنے کو کہتی تھیں لیکن تب کسی نے اعتراض نہیں کیا۔‘
نیوز پورٹل ’مسلم مرر ڈاٹ کام‘ کے ایڈیٹر سید زبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسی کارروائیاں بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔