روسی فوجی محاصرے میں گھرے یوکرینی شہر ماریوپول کی ایک سٹیل مل کا دفاع کرتی یوکرینی افواج نے روسی فوج پر الزام لگایا ہے کہ شہریوں کو وہاں سے نکالنے کے دوران فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ ایسا تب ہو رہا ہے جب ماسکو نے فائر بندی کا اعلان کیا ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرینی افواج کی آزوف بٹالین نے ٹیلی گرام پر کہا ہے کہ ’روسیوں نے ایک گاڑی کو اس وقت ٹینک شکن خودکار ہتھیار سے نشانہ بنایا جب وہ شہریوں کو سٹیل مل سے نکالنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی۔‘
اس مبینہ حملے میں ایک یوکرینی جنگجو مارا گیا اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا ایک نیا مشن اب سٹیل مل میں پھنسے دو سو شہریوں کو بچانے کی کوشش کرے گا۔ یہ سٹیل مل تباہ حال شہر میں روسی افواج کے خلاف آخری معرکہ بن گئی ہے۔
روسی فوج نے تین روزہ فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کا آغاز گذشتہ جمعرات کو ہوا لیکن یوکرین کا کہنا ہے کہ سٹیل مل پر حملہ جاری ہے۔
اے ایف پی نے یوکرینی فوج کے ایک عہدےدار کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں اہلکار کا کہنا ہے کہ ’ماریوپول شہر میں سٹیل مل کے گرد روسی فوج کا محاصرہ جاری ہے۔ بعض علاقوں میں دشمن نے فضائی مدد کے ساتھ دوبارہ حملوں کا آغاز کر دیا ہے تاکہ سٹیل مل کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر سکے۔‘
یوکرین کا روسی جنگی جہاز مار گرانے کا دعویٰ
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے روسی جنگی جہاز ایڈمرل ماکاروف کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے جس سے اس میں آگ لگ گئی ہے۔
یہ روس کا تازہ ترین بحری نقصان ہو گا جو روسی جنگی بحری جہاز موسکوا کے ڈوبنے کے بعد رونما ہوا ہے جس کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے یوکرین کو اس بحری جہاز کو کھوجنے اور ڈبونے میں معاونت فراہم کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ جنگی بحری جہاز سنیک آئی لینڈ کے قریب بحیرہ اسود میں اوڈیسا کے جنوب میں موجود تھا۔
تاہم امریکہ نے کہا ہے کہ اس کو ایڈمرل ماکاروف پر حملے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی سے جب ایک پریس کانفرنس میں روسی بحری جنگی جہاز کو نشانہ بنانے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے ان اطلاعات سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
جان کربی کا کہنا تھا: ’ہم نے خبریں دیکھیں ہیں۔ میرے خیال میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ روسی جنگی بحری جہاز تھا۔ ہم سارا دن یہ دیکھتے رہے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاعات نہیں جن سے ان خبروں کی تصدیق ہوتی ہو۔‘
جان کربی نے یوکرین کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے کہا: ’ہم انہیں مفید اور متعلقہ معلومات وقت پر مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا دفاع بہتر طور پر کر سکیں لیکن حتمی فیصلہ ان کا ہوتا ہے کہ ان معلومات کا وہ کیا کریں گے۔‘