افغانستان کے صوبہ خوست میں مبینہ فضائی حملے کے بعد مداخیل قبائل نے بنوں میں گذشتہ دو ہفتوں سے مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا دیا جس میں دیگر اقوام نے بھی اظہار یکجہتی کے لیے شرکت کی۔
تاہم گذشتہ شب مظاہرین کی سات رکنی کمیٹی اور عسکری حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوگئے جس کے بعد دھرنا ملتوی کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین کمیٹی کے رکن ملک اکبر خان نے مذاکرات میں رکھے گئے مطالبات کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان میں مقیم تمام متاثرین شمالی وزیرستان کی فوری واپسی ممکن بنائی جائے تاکہ پھر سے ایسی نوبت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو افغانستان میں شمالی وزیرستان کے قبائل پہلے سے آباد ہیں ان کی جائیدادیں اور باقاعدہ قصبے ہیں جو اب خاردار تار لگائے جانے کی وجہ سے وہاں پر رہ گئے ہیں ان کے لیے آمد و رفت میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔
کمیٹی اراکین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ افغانستان سے مختلف راستوں سے جو متاثرین حال ہی میں آئے ہیں انہیں آئی ڈی پیز تسلیم کرکے معاوضہ دیا جائے۔
ملک اکبر خان کا کہنا ہے کہ یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کے لیے قومی شناختی کارڈ کا اجرا ممکن بنایا جائے، ان قبائل کے لوگ پہاڑوں پر رہتے ہیں اور ان کے آباو اجداد بھی اب موجود نہیں لیکن انتظامیہ شناختی کارڈ بناتے وقت ان سے والدین کے شناختی کارڈ طلب کرتے ہیں لہذا علاقائی ملکان کے دستخط کے ذریعے تصدیق شدہ فارمز پر شناختی کارڈ، فارم ب اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹس کا اجرا کیا جائے۔
’ساتھ ساتھ آئی ڈی پیز کیمپ کے متاثرین کے بھی شناختی کارڈ بنائے جائیں تاکہ یہ واپس جاکر مشکلات سے دوچار نہ ہوں۔‘
کمیٹی اراکین نے بتایا کہ اکثر متاثرین نے رجسٹریشن کارڈ بنائے ہیں لیکن انہیں پی ڈی ایم اے کی طرف سے امدادی رقوم نہیں مل رہیں لہذا امدادی رقوم جاری کی جائیں۔
واضح رہے کہ دو ہفتے قبل افغانستان کے صوبے خوست میں مبینہ بمباری ہوئی تھی جس میں شمالی وزیرستان کے درجنوں لوگ بھی نشانہ بن گئے تھے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان دولت خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون کے ذریعے انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ مداخیل قبیلے کے دھرنے کے جائز مطالبے پر پہلے سے شمالی وزیرستان کی انتظامیہ کام کررہی ہے افغانستان سے آئی ڈی پیز کی واپسی کے سلسلے میں تیزی لائیں گے۔ جتنے لوگوں کے شناختی کارڈ نہیں ان کے شناختی کارڈ بنوائیں گے اور ان کے دیگر جائز مطالبے حل کرائیں گے۔
واضح رہے کہ دو ہفتے قبل افغانستان کے صوبے خوست میں مبینہ بمباری ہوئی تھی جس میں شمالی وزیرستان کے درجنوں لوگ بھی نشانہ بن گئے تھے۔ عسکری ذرائع دعوی کر رہے ہیں کہ مذکورہ علاقے میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع تھی اور فضائی حملے میں 34 شدت پسند بھی ہلاک کیے گئے ہیں جن میں نامی گرامی کمانڈر بھی شامل ہیں۔