ماحولیات پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی بھاری اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں انسانی طرز عمل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
لیکن اس اتفاق رائے اور ماحولیاتی بحران کے سبب کرہ ارض پر تباہ ہونے والی زندگیوں کے متعلق خبروں کے باوجود لوگوں کی ایک تشویشناک تعداد اب بھی یقین رکھتی ہے کہ ماحولیات کا بحران انسان کا پیدا کردہ نہیں یا یہاں تک کہ وہ اس کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں۔
یہ صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ ایک عالمی رائے عامہ اور ڈیٹا کمپنی یو گوو کی تحقیق کے مطابق 72 فیصد برطانوی سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی طرز عمل کا نتیجہ ہیں۔
دس سال سے بھی کم عرصہ قبل صرف نصف لوگوں کا خیال تھا کہ انسان اس کے ذمہ دار ہیں۔
لیکن13 فیصد کو یقین ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی طرز عمل کی وجہ سے نہیں ہیں اور تین فیصد اس بات پر ہی یقین نہیں رکھتے کہ آب و ہوا بالکل تبدیل ہو رہی ہے۔
ییل پروگرام آن کلائمٹ کمونیکیشن کے مطابق امریکہ میں 72 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ ہو رہی ہے، لیکن صرف 57 فیصد کا خیال ہے کہ یہ زیادہ تر انسانی طرز عمل کا نتیجہ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے انکار کی وجہ کیا ہے؟
میگن کینیڈی ووڈورڈ ایک کوچنگ ماہر نفسیات اور ماحولیاتی تبدیلی سے پریشان افراد کی مدد کرنے والی تنظیم کلائمٹ سائیکالوجسٹ کی شریک بانی ہیں۔ وہ ’ٹرن دا ٹائیڈ آن کلائمٹ اینگزائٹی، سسٹین ایبل کلائمٹ ایکشن فار یور مینٹل ہیلتھ اینڈ دا پلینٹ‘ کی شریک مصنفہ بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب اس مسئلے کی بات آتی ہے تو یہاں دو عوامل کارفرما نظر آتے ہیں، انکار اور انکارپسندی۔
انکار ان افراد اور گروہوں کے لیے ایک دفاعی طریقہ کار ہے جنہیں ماحولیاتی سائنس اور ایکشن نہ لینے کی صورت میں ہمیں درپیش آنے والی حقیقت کو سمجھنے اور اس کا سامنا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
انہوں نے کہا:’ انکار ایک نفسیاتی دفاع ہے، جو بعض صورتوں میں ہمیں ایسی معلومات سے بچاتا ہے جن کو اکثر فوری طور پر قبول کرنا یا سمجھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہمارے کسی عزیز کو قتل کردیا جائے تو ہمارے پہلے خیالات اکثر یہی ہوتے ہیں کہ، نہیں یہ سچ نہیں ہو سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم کہتے ہیں کہ ماحولیاتی ایکشن میں تھوڑا سا انکار مناسب ہے کیونکہ اگر ہم صرف اس بحران کا سوچیں گے جس میں ہم ہیں تو ماحولیات کے متعلق ضروری اقدامات جاری رکھنا مشکل ہوگا۔ شاید صبح بستر سے اٹھنا ہی آسان نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’تو ہم اس تھوڑے سے انکار کو اسی طرح معاون کے طور دیکھ سکتے ہیں جس طرح ہم تھوڑی سی پریشانی یا غصے کو دیکھتے ہیں۔ جب تک ہم اس سے نمٹ رہے ہیں اور یہ ہماری ذہنی صحت پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال رہا، ہم ان کی جانب جھکے بغیر ان جذبات کو محسوس کر سکتے ہیں۔‘
اس کے بعد ایک بنائی گئی انکار پسندی ہے، جسے کینیڈی ووڈورڈ کے مطابق، 20 کروڑ ڈالر سالانہ کی لاگت سے غلط معلومات کی مہمات سے بویا گیا ہے، جس کے پیچھے بنیادی طور پر فوسل فیول انڈسٹری اور اس کے حریف سیاست دان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کینیڈی ووڈورڈ کہتی ہیں: ’انکار کے یہ بیج جان بوجھ کر سائنس اور ہماری کرہ ارض پر تبدیلی کے انسانی اثرات کو غلط دکھانے کے لیے بوئے گئے ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ لوگ اس پر یقین نہیں کرتے اور نہ ہی اسے سمجھتے ہیں۔ ہم ان مہمات کے ذریعہ نشانہ بنائے گئے لوگوں کو ان کے انکار کا مکمل مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔‘
’کچھ لوگوں کو ماحولیاتی بحران اتنا بڑا لگتا ہے کہ اس کا سامنا نہیں کیا جاسکتا اور ہاں، جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لینے کا عنصر موجود ہے لیکن جیسے جیسے موسم کی شدت، ماحولیاتی نقل مکانی اور جانی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسا زیادہ دیر تک کرنا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔‘
یونیورسٹی آف ریڈنگ میں اپلائیڈ بی ہیویئرل سائنسز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریچل میکلوئے ماحولیاتی رویوں، کھانے کے انتخاب اور عوامی پالیسی کے مسائل پر نفسیات کا اطلاق کرنے کے شعبوں میں ماہر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر لوگ کسی حد تک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقی مسئلہ ہے، لیکن وہ اس کو نظر انداز یا اس کے بارے میں کچھ نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا: ’یہاں نفسیاتی طور پر وہ عوامل کارفرما ہیں جن میں پیشگی ادائیگی (کل کی قیمت پر آج کے لیے زندگی جینا) اور بڑے منفی واقعات پر ہمارے جذباتی ردعمل شامل ہیں۔‘
ڈاکٹر ریچل میکلوئے کے بقول: ’جیسا کہ بی ہیویئرل معاشیات کے ماہر ڈین ایریلی نے نشاندہی کی ہے، اگر ہم کوئی ایسا مسئلہ ڈیزائن کریں جس کی لوگوں کو پروا نہ ہو، تو وہ ایسا ہی کچھ ہوگا جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ملتا جلتا ہوگا۔ اس کی مکمل حد غیر یقینی ہے، یہ کہیں مستقبل میں ہونا ہے اور شاید انتخاب کرنے والا شخص اس کو براہ راست نہ دیکھ سکے اور اس کے پہلے اثرات دور دراز کے لوگوں پر ہوں۔‘
ان کے بقول: ’یہ تمام چیزیں طویل مدتی منصوبہ بندی کی قیمت پر قلیل مدتی سوچ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’معاملہ یہ بھی ہے کہ کسی ایک شخص کے طرز عمل میں تبدیلیوں کے اثرات کم سے کم اور دوسروں کے اجتماعی اقدامات پر منحصر ہوتے ہیں۔ یہ ان احساسات کا باعث بنتا ہے کہ صورت حال قابو میں نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر ممکنہ منفی واقعات کا خوف انکاری کو دفاعی طریقہ کار کے طور پر استعمال کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
غیر روایتی اعدادوشمار
کینیڈی ووڈورڈ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے انکار کرنے والے جورڈن پیٹرسن جیسی میڈیا شخصیات اور غیر روایتی نیوز ویب سائٹس کی تلاش میں رہتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں سکون فراہم کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’انسانی دماغ کو یہ احساس اچھا لگتا ہے کہ وہ صحیح ہیں۔ ہم جان بوجھ کر ایسی معلومات تلاش کرتے ہیں جو ہمارے عقیدے کے نظام سے مطابقت رکھتی اور اسے برقرار رکھتی ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم یہ بھی محسوس کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس سے ہماری شناخت ہے۔ یہ ایک ایسے ماحول کی طرح کام کرتا ہے جہاں ہمیں صرف ان معلومات یا آرا کا سامنا ہوتا ہے جو ہماری اپنی عکاسی کرتی ہیں۔ اس معاملے میں ’باہر والے‘ جیسے سائنس دان، جو ہمارے جذبات کی بجائے ہماری عقل کو مخاطب کرتے ہیں، کو سننا اور رائے قائم کرنا دشوار ہو۔
’اگر یہ بے باک، لیکن نااہل مشہور شخصیات انہیں پرکشش لگتی ہیں یا انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی شناخت ان کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں، تو ان کے لیے اندھی تقلید کرنا بہت آسان ہے اور وہ بالکل تقسیم پیدا کر سکتے ہیں اور استحصالی ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’(سوشل میڈیا) الگورتھم لوگوں کو ان ذرائع کی طرف لے جاتے ہیں اور انہیں اصل سے زیادہ قابل اعتماد یا مقبول ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگ خوفزدہ یا غیر محفوظ ہوتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ منطقی انداز میں صورت حال کا جائزہ لے رہے ہوں۔‘
ان جذبات کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں سے انکار کرنے والے گریٹا ٹونبرگ جیسے ممتاز ماحولیاتی کارکنوں پر تنقید کر سکتے ہیں۔
کینیڈی ووڈورڈ نے مزید کہا: ’ہماری دنیا میں بہت زیادہ ’وہ تو الگ ہیں‘ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے تقسیم گہری ہوگئی ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’بعض سائنسدان اور اب گریٹا جیسے کارکن بھی، اس عمل کا شکار ہیں جس کو مائیکل مان نے ’سیرنگیٹی حکمت عملی‘ کا نام دیا ہے یعنی انہیں الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے اور سیاسی اور معاشی طور پر اکسائے ہوئے لوگ انہیں نشانہ بناتے ہیں۔‘
’لوگ اس مقصد میں شامل ہو جاتے ہیں، اپنے گروپ کے ساتھ چلتے ہیں اور ان لوگوں کو بدنام کرتے ہیں جن کا نقطہ نظر ان سے مختلف ہوتا ہے۔‘
© The Independent