برطانیہ میں کبھی بھی کسی بھی نوجوان پیشہ ور باکسر کو ویسی سکروٹنی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسے عامر خان کو کرنا پڑا۔
17 سال بعد ایک پیشہ ور باکسر، عالمی چیمپیئن، خطرات، سنسنی خیزی، بھرے ہوئے میدان اور40 مقابلوں کے بعد عامر خان باضابطہ طور پر اس کھیل سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔ ان کی عمر اب بھی صرف 35 سال ہے، وہ اب بھی امیر اور صحت مند ہیں۔
سال 2004 میں ایتھنز میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں شرکت کے وقت عامر خان کی عمر صرف 17 سال تھی، لیکن تقریبا 12 سال تک وہ باکسنگ میں برطانیہ کے واحد نمائندے تھے۔
وہ اس خواب کے ساتھ ایک بڑی آنکھوں والا ایک بچہ تھا، جس پر کسی کو کامیابی کا یقین نہیں تھا۔ اس وقت وہ برطانیہ میں 36 برسوں میں صرف ایک اولمپک فائنلسٹ تھے۔
عامرخان نے تمام مشکلات کے مقابل فائنل میں پہنچنے کے لیے چار لڑائیاں جیتیں۔ ان کے مد مقابل کیوبا کے شاندار باکسر چیمپئن ماریو کنڈیلن تھے، جو 2004 کے فائنل میں جیت گئے تھے۔
عامر خان ہار گئے، لیکن وہ رنگ میں ماریو کنڈیلن کا تعاقب کرتے رہے۔ اس اتوار کی سہ پہر ایک ستارہ، ایک ہیرو، ایک راہ دکھانے والا پیدا ہوا۔
چند ماہ بعد بولٹن میں اور آئی ٹی وی پر لائیو عامر خان نے ماریو کنڈیلن کو ری میچ میں شکست دی-
اس رات وہ پیشہ ور باکسربن گئے۔ عامر خان کی عمر ابھی صرف 18 سال تھی اور وہ توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے، اور یہ روشنی کبھی کم نہیں ہوئی۔ عامر خان 17 سال میں رنگ کی رسیوں کے اندر یا باہر کبھی بھی عام زندگی نہیں گزار سکے۔
انہوں نے ناقدین، نسل پرستوں، احمقوں، غصے اور دولت کے ساتھ بے پناہ صبر اور سٹائل کے ساتھ مقابلہ کیا۔ سچ یہ ہے کہ باکسنگ نے ان کا بچپن چھین لیا اور رنگ میں ان کی زندگی خان شو بن گئی۔
انہوں نے صرف 22 سال کی عمر میں عالمی ٹائٹل جیتا اور عالمی ناظرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ وہ اپنے دل سے لڑتے تھے، کبھی کبھی وہ باکسنگ کے دوران اپنا آپ بھول جاتے تھے، وہ کئی شاندار اور یادگار باکسنگ مقابلوں کا حصہ رہے۔ انہیں چوٹ پہنچائی جا سکتی تھی، گرایا جا سکتا تھا، ڈگمگایا جا سکتا تھا، لیکن ان میں اتنی خواہش تھی کہ وہ رنگ میں دوبارہ لڑ سکتے تھے۔
انہوں نے لڑائیاں جیتیں، انہوں نے تفریح کی۔ ابتدائی سالوں میں ان کی رفتار تیز تھی اور وہ بار بار اپنی بڑی کامیابیوں کے ساتھ شکوک و شبہات اور تنقید کرنے والوں خاموش کر دیتے تھے۔ ان کی لڑائیاں ایونٹ بن گئیں۔
اتنی تنقید کا سامنا کرنے والا باکسر میں نے کبھی نہیں دیکھا اور یہ کہنا پڑے گا کہ زیادہ تر تنقید نفرت اور تعصب اور نسل پرستی پر مبنی تھی۔
عامر خان نےاسے صرف نظر انداز کیا، ایک جم کی بنیاد رکھی، پوری دنیا میں ضرورت مند لوگوں کو مالی امداد فراہم کی اور ہمیشہ کے لیے ان ڈیمانڈ تھے۔ بولٹن سے دبئی تک، لاہور سے برک لین تک اور ہالی ووڈ سے گارڈن تک، ہر ایک کے پاس خان کی کہانی تھی۔ یہ بچہ ایک سٹار تھا، اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔
انہوں نے بڑے فائٹرز کے ساتھ مقابلے کیے، کچھ مقابلوں میں انہوں نے خوابوں جیسی لڑائی لڑی، کچھ مقابلوں میں ججوں نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا، جب وہ جیت رہے تھے تو ہار گئے اور جب ہار رہے تھے تو جیت گئے۔
جیت اور ہار کے دوران، جیسا کہ ایک پرانی نظم ہے، انہوں نے اپنے مخالفین اور اپنے مداحوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا۔
کوئی بھی زخم ہو یا اسے کوئی چوٹ پہنچ جائے، لیکن وہ پھر بھی میڈیا سے ملتے، تمام عجیب و غریب سوالات سنتے اور ہارنے کے بعد مسکراتے۔
فتح کی صورت میں وہ اس شخص کی تعریف کرتے جس کو انہوں نے ہرایا تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک پرانے زمانے کے شریف باکسر تھے۔ ہمارے سر ہنری کوپر ہوتے تو، ان پر فخر کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور پھر بھی جانچ پڑتال چلتی رہی، انہیں نجی زندگی میں بھی نشانہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جس حسد کا اظہار کیا جاتا وہ اکثر ذلت آمیز ہوتا تھا۔ یہ وہ جگہیں ہیں جو حسد اور منافقت جیسی برائیوں کو جائز بناتی ہیں۔ عامرخان نفرت کی دیوار کے سامنے ایک لیجنڈ اور رنگ میں بالکل نڈر تھے۔
جب انہوں نے 2005 کے موسم گرما میں اپنے آبائی شہر بولٹن سے شروعات کی تو باضابطہ طور پر یہ ایک اہم مقابلہ نہیں تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اپنے40 مقابلوں میں سے ہر ایک میں صرف وہ ہی توجہ کا مرکز تھے۔
پوری دنیا میں ہونے والے اپنے مقابلوں میں وہ 34 بار جیتے اور چھ لڑائیاں ہارے۔ انہوں نے او ٹو، نیویارک کے گارڈن، ایم جی ایم، منڈلے بے، ٹی موبائل، دی مین، بارکلیز سینٹر اور دیگر درجنوں مقامات پر باکسنگ کی۔
انہوں نے نیون لائٹس کے نیچے بہت سے عالمی ٹائٹلز کے لیے کھیلا: 2009 میں اینڈری کوٹلنک کے خلاف ، 2010 میں مارکوس میدانا کے ساتھ ،2016 میں لاس ویگاس میں ساؤل کینیلو الوارز کے ساتھ ان کا جرات مندانہ مقابلہ۔ انہوں نے ہمت کی، خطرہ مول لیا اور فخریہ انداز اور خواہش کی ہر اونس کو رنگ میں ہی چھوڑ دیا۔
رواں سال فروری میں انہوں نے اپنا آخری میچ کھیلا، جب مانچسٹر ایرینا میں ان کا مقابلہ اپنے پرانے حریف کیل بروک سے ہوا۔ عامر خان نے2009 میں یہاں اپنی پہلی عالمی ٹائٹل فائٹ جیتی تھی۔
بروک کے ساتھ ہونے والے اس مقابلے کی ٹکٹس صرف چھ منٹ میں فروخت ہو گئیں اور اس رات 20 ہزار سے کچھ کم افراد نے عامر خان کا آخری میچ دیکھا۔
بروک نے چھ راؤنڈز میں کامیابی حاصل کی، زخمی عامرخان نے ہیرو کی طرح شکست کو قبول کیا اور بروک کی تعریف کی۔
یہ اختتام تھا، اس رات وہ یہ جانتے تھے، لیکن فیصلہ کرنے میں کچھ ہفتے لگے۔ ویسے یہ درست فیصلہ ہے۔
عامر خان کو اس وقت سے کور کرنا ایک اعزاز اور خوشی کی بات تھی جب وہ بری جم میں لڑنے والا دبلے سے لڑکے تھے، پھر اولمپکس اور پھر پوری دنیا میں، وہ ایک عظیم پیشہ ور اور اس سے بھی بہتر انسان اور دوست تھے۔
© The Independent