ایک دور وہ تھا جب عامر خان کے نام سے باکسرز کانپتے تھے، جب وہ کسی باؤٹ (باکسنگ رِنگ) میں لڑ رہے ہوتے تھے تو لوگ دل تھام کے بیٹھے ہوتے تھے۔
کمنٹری والے بولتے سنائی دیتے تھے کہ شیر کا جگرہ ہے عامر خان کا، پنچ پر پنچ کھانے کے بعد بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے، ٹانگیں ساتھ نہ بھی دے رہی ہوتیں تو عامر خان پھر بھی ایک شیر کی طرح لڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔
اب اک وقت دیکھنے والوں نے ایسا بھی دیکھا کہ کل رات عامر خان کو باکسنگ رنگ میں دیکھتے ساتھ ہی گھبراہٹ سی ہونے لگی کیونکہ وہ پرانے عامر خان نہیں نظر آرہے تھے۔
بدن پر حجامہ کے نشان اور وجود اپنے حریف کے مقابلے میں انتہائی لاغر دکھائی دے رہا تھا۔ دوسری جانب مدمقابل کیل بروک غصے اور طیش میں نظر آرہے تھے، جیسے ٹھان کے آئے ہوں کہ آج نہیں چھوڑوں گا۔
پہلا راؤنڈ شروع ہوتے ہی میرے چہرے کا رنگ بدلنے لگا کیوںکہ جس عامر خان کو میں نے کرئیر کی شروعات میں دیکھا تھا، یہ بالکل بھی وہ نہیں تھے۔
نہ ہی وہ ہینڈ سپیڈ، نہ ہی ٹائمنگ اور نہ ہی حریف کے پنچ کے بعد انکاری ایکشن۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ایک فائیٹر پوری ٹریننگ کر کے آیا ہے اور دوسرے کو صبح تک خبر ہی نہیں تھی کہ رات کو رنگ میں اترنا ہے۔
دکھ ہوا، افسوس ہوا اور اپنے فیس بک پیج پر جا کے یہ پوسٹ کیا کہ ’ایسا لگ رہا ہے جیسے عامر خان بوکھلائے ہوے ہیں اور یہ باؤٹ بہت غلط ثابت ہو سکتا ہے خان کے لیے‘ اور وہی ہوا۔
ایک کے بعد دوسرا راؤنڈ، پھر تیسرا، چوتھا اور پھر راؤنڈز بڑھنے کے ساتھ ساتھ نظر آرہا تھا کہ کیل بروک اپنے پنچز بہتر طریقے سے ٹائم کر رہے تھے جیسے ان کو ردھم مل گیا ہے اور دوسری جانب عامر خان ایسے نظر آرہے تھے جیسے کوئی کھویا ہوا بچہ جس کو پتا ہی نہیں کہ وہ باکسنگ رنگ میں ہے۔
17 سال کی عمر میں اولمپک سلور میڈل اور 24 سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے پوری دنیا کے چیمپین عامر خان تھے، اس سفر میں باکسنگ کے بڑے بڑے نام جیسے مارکوس میڈانا، اینٹونیو بریرا، انڈریس کوٹیلنیک کو اپنے مُکوں سے بچنے کا موقع نہیں دیتے تھے اور یہی تابڑ توڑ سپیڈ ان کی پہچان بنی لیکن کل رات شاید اپنی زندگی کی سب سے بڑی فائٹ عامر خان ہار گئے۔
یہ فائٹ کسی معمولی حریف کے ساتھ نہیں تھی، یہ کیل بروک کے ساتھ تھی جو عامر کے سب سے پرانے حریف مانے جاتے ہیں۔
سال 2012 میں سکائی سپورٹس پر عامر خان اور کیل بروک اکٹھے ایک انٹرویو میں نظر آئے اور اسی انٹرویو کے دوران دونوں فائٹرز میں کافی تلخ کلامی بھی ہوئی جہاں خان نے یہ دعویٰ کیا کہ اولمپکس کے لیے تیاری کرنے کے دوران انہوں نے کیل بروک کی کلاس لے لی تھی اور یہ کہ عامر کیل بروک سے بڑے فائٹر ہیں اور اگر کبھی دونوں کے بیچ مقابلہ ہوا تو وہ ایک بار پھر کیل بروک کو دھول چٹا دیں گے۔
جواب میں کیل بروک نے کہا تھا کہ ’عامر تمہیں بھی پتہ ہے کہ کس نے کس کی کلاس لی تھی‘ 2012 کے اس انٹرویو کے بعد باکسنگ فینز کو اس مقابلے کا شدت سے انتظار تھا۔
برسوں بعد 2021 کے اختتام پر یہ خبر آئی کہ عامر خان اور کیل بروک 19 فروری 2022 کو آخر کار رنگ میں اترنے والے ہیں۔
یہ خبر دیکھتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، یہ مرنے مارنے والی فائٹ تھی، اس باؤٹ کا مجھے شدت سے انتظار تھا چونکہ عامر خان بہت سارے پاکستانیوں کی طرح میرے بھی آئیڈیل تھے اور اس کی وجہ ان کے کرئیر کی پہلی بڑی فائٹ تھی جو کہ ڈمیٹری سلیٹا (ایک یہودی باکسر) کے خلاف تھی۔
اس مقابلے کو ’مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان معرکے‘ کا رنگ دے دیا گیا تھا، میں ان دنوں کارڈف میں یونیورسٹی سٹوڈنٹ تھا اور باکسنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن پاکستانی کمیونیٹی میں ایک شوروغل تھا کہ فلاں تاریخ کو یہ فائٹ ہونے والی ہے اور ’عامر خان دھول چٹانے والے ہیں کسی یہودی باکسر کو‘ تو میں بھی چند دوستوں کے ساتھ یہ فائٹ دیکھنے لگ گیا اور ایمان سے اگلے دن برطانیہ کے اخباروں میں ایک پاکستانی مسلمان کو فاتح دیکھ کر میرا بھی سینہ چوڑا ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی عامر خان کی کوئی فائٹ مس نہیں کی اور آج صبح سے یہ سوچ رہا ہوں کہ کاش یہ کل رات والی مس کر دیتا تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باؤٹ ختم ہونے کے بعد ایک کمینٹیٹر نے کہا کہ ادھیڑعمری عامر خان کو برباد کر چکی ہے اور یہ الفاظ سنتے ہی خیال آیا کہ واقعی ایک دور ختم ہو گیا۔
35 سال کی عمر میں 40 فائیٹس اور 34 بار جیت، یہ کوئی ہلکی بات نہیں ہے اور شاید عامر خان کو خود بھی اس بات کا احساس ہے کیونکہ لڑائی کے بعد انٹرویو میں وہ بھی یہی بات کہ رہے تھے۔
عامر خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’میری ٹائمنگ ویسی نہیں تھی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی اور میرا ری ایکشن ٹائم بھی بہت سلو تھا، میری سپیڈ اب بھی ویسے ہی ہے لیکن کیل بروک کے پنچز کے جواب کا ری ایکشن بالکل خراب تھا، اور یہ میرے لیے شاید اشارہ ہے کہ باکسنگ کو الوداع کر دوں۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کھیل سے ویسی محبت اور میرا وہ جذبہ اب باقی نہیں رہا۔
مجھے نہیں پتہ کہ عامرخان آگے اور لڑیں گے یا نہیں، ان کے بیانات میں انہوں نے اس بات کا اشارہ تو دے دیا کہ یہ ان کے کرئیر کی آخری فائٹ تھی اور اب وہ فیملی کو ٹائم دینا چاہتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے، سپیڈ شاید وہ نہ رہی ہو، ٹائمنگ شاید ختم ہوگئی ہو، مگر آج بھی میرے لیے عامر ایک چیمپین ہیں اور رہیں گے!