کل مجھ سے ملنے کے لیے دو دوست آئے۔ دونوں لگثری آئٹمز کی درآمدات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کی پریشانی مشترکہ تھی۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ درآمدات پر پابندی لگا کر حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے کاروبار ابھی سے متاثر ہونے لگے ہیں۔ جو کسٹمرز ایک مہینے کا سامان لے کر جاتے تھے وہ تین سے چار ماہ کا سامان لے کر جا رہے ہیں۔ لیکن ہم مزید درآمدات کے لیے آرڈر نہیں کر پا رہے۔ مال چند دنوں میں ختم ہو جائے گا تو اس کے بعد ہم کیا کریں گے۔ کرونا کے بعد جب کاروبار چلنے لگے ہیں تو حکومت کی جانب سے دوبارہ بندش لگا دی گئی ہے۔ اگر یوں ہی معاملات چلتے رہے تو ہمارے دفتروں کو تالے لگ جائیں گے۔
میں نے انہیں بتایا کہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ کرنا چاہتی ہے۔ روپے کی قدر بہت تیزی سے گر رہی ہے۔ اگر موثر اقدامات نہ کیے گئے تو پیٹرول اور ڈیزل خریدنے کے لیے بھی ڈالرز نہیں بچیں گے۔ وہ میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ لگثری آئٹمز کی پابندی کے باوجود روپیہ مزید کمزور ہو گا۔ لگثری سامان تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ حکومت اصل مسائل کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہے۔
ان دوستوں کے جانے کے بعد میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سکریٹری ظفر پراچہ سے رابطہ کیا اور حالات حاضرہ پر ان کی رائے جاننے کی کو کوشش تو انہوں نے بتایا کہ پابندی لگنے والے لگثری سامان کا درآمدات میں حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ تقریباً 41 اشیا پر پابندی لگی ہے۔ جن کی درآمدات کی مالیت تقریباً 600 ملین یا 60 کڑوڑ ڈالرز ہے۔ پاکستان کی درآمدات 6.6 ارب ڈالرز ہے۔ صرف لگثری آئٹمز پر پابندی لگانے سے ڈالرز کی پرواز روکنا مشکل ہے۔ اس سے وقتی طور پر ٹھراؤ آ سکتا ہے۔ جیسا کہ 20 مئی کو ڈالر کی پرواز پچھلے دنوں کی نسبت کم رہی ہے۔ لیکن روپے کو لمبے عرصے تک مضبوط رکھنے کے لیے پابندیاں لگانے کی بجائے سیاسی عدم استحکام کا ختم ہونا ضروری ہے۔
25ان کے مطابق اراکین کی نااہلی کے فیصلے نے ایک مرتبہ پھر بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ڈالر مافیا اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سٹہ لگا رہا ہے۔ جو ڈالر کے بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔ ڈالر کی اصل قیمت 175 روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ان مافیاز کو روکنے کا کوئی موثر طریقہ زیر بحث نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ پابندیاں لگانے کے بعد اشیا کی سمگلنگ کے راستے بھی بند کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے قالینوں کی درآمدات کے راستے کھلے رکھے ہیں۔ قالینوں کے نام پر لگثری آئٹمز براستہ افغانستان درآمد ہونے کے خدشات ہیں اور ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک سمگل ہو سکتا ہے۔ کمزور حکمت عملی فائدے کی بجائے نقصان کی وجہ بن سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ حکومت اگر ہم سے بات کرے تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ایکسچیننز کمپنیز اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ جو سہولتیں اور ڈسکاونٹس بینکس کو دیے جاتے ہیں۔ اگر ان میں سے آدھی سہولتیں ایکسچنیج کمپنیز کو دی جائیں تو ایک سال میں کم ازکم چار ارب ڈالرز مزید پاکستان لا سکتے ہیں۔ ڈالرز کو باہر جانے سے روکنے کی نسبت ڈالرز کو ملکی خزانے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ورلڈ بینک کے ایک ماہر معیشت نے حکومت پاکستان کے درآمدات کی پابندیوں کے فیصلے کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درآمدات پر پابندی کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنے کے لیے مناسب قدم نہیں ہے۔ یہ برآمدات میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ گو کہ صنعتوں کے خام مال پر پابندی نہیں لگائی گئی لیکن ایسے فیصلوں سے برآمدات کا سامان تیار کرنے والی صنعتیں چلانے والے درآمدات کی رفتار سست کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسی صورت حال میں ملک میں یہ خدشہ برقرار رہتا ہے کہ حکومت کسی بھی وقت دیگر اشیا کی درآمدات پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر پیداوار کرنے والے صنعت کار اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھ سکتی ہے۔ جو کہ تشویش ناک ہے۔بیلنس آف پیمینٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
عارف حبیب لمیڈیڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بتایا کہ درآمدات پر پابندی کے فیصلے سے ڈالر کی قیمت روکنے اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنے میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ بلکہ تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ تیل کی درآمد ہے جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروباری اوقات میں تبدیلی اور آن لائن طرز زندگی کو فروغ دے کر بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کو بچایا جا سکتا ہے۔ سولر انرجی کو فروغ دیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ایل این جی سمیت انرجی کے دوسرے ذرائع کی درآمدات کم ہو سکیں۔
لگثری آئٹمز کی درآمدات پر ٹیکس آمدن میں کمی کے حوالے سے جاننے کے لیے جب وزرات خزانہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی یہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
لیکن وزرات خزانہ کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پابندی لگائی گئی اشیا برآمدات کا پانچ فیصد ہیں لیکن ان سے حاصل ہونے والی ٹیکس آمدن پانچ فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف ایک طرف اس پابندی کو خوش آمدید کہہ رہی ہے اور دوسری طرف ٹیکس اہداف کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنہیں حاصل کرنے کے لیے عوام پر مزید ٹیکسز کا بوجھ ڈالے جانے کی تیاری ہے۔
ماہرین کی رائے کے نتیجے میں مجھے اپنے دوستوں کے خدشات درست محسوس ہونے لگے ہیں۔ درآمدات پر پابندی مسائل کا حل نہیں ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ کسی ایک عمل سے کم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر موثر معاشی پالیسی پر کام کرنا ہو گا۔ سیاسی استحکام کی راہ ہموار کیے بغیر موجودہ بحران سے نکلنا مشکل ہے اور آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے میں تاخیر مزید مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ یہ وقت ذاتی اور پارٹی مفاد سے نکل کر ملکی مفاد کے بارے میں سوچنے کا ہے۔ اگر ملک کے سیاستدان سنجیدہ نہ ہوئے تو سری لنکا جیسی صورتحال تک پہنچنے میں مہینوں نہیں بلکہ چند دنوں کا فاصلہ رہ جائے گا۔