اس دن طبیعت مضمحل تھی۔ میں اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس نیم دراز کتاب پڑھ رہی تھی کہ ساتھ والوں کے گھر سے اونچی اونچی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ماں بیٹی کی کسی بات پہ نوک جھونک تھی۔
ہمارے برائے نام گھروں کے درمیان کاٹن کی چادر کا پردہ حائل تھا۔ خاموشی میں کوئی سانس بھی لیتا تو آواز سنائی دیتی۔ وہاں تو باقاعدہ لڑائی ہو رہی تھی۔ بیٹی کی آواز ماں کی آواز سے اونچی تھی۔
وہ کہہ رہی تھی، ’میں جا کر دکھاؤں گی، میں دیکھتی ہوں مجھے کون روکتا ہے۔‘
ماں نے دھیرے سے کہا، ’ہوش کے ناخن لو۔ پتھر اپنی جگہ پہ پڑا اچھا لگتا ہے۔‘
بیٹی نے کرختگی سے کہا، ’سمجھ لو کہ اب ان پتھروں میں جان آ گئی ہے۔ مجھے مجبور نہ کرو ماں۔ خود اجازت دے دو ورنہ میں بھاگ جاؤں۔‘
ماں پھر نرمی سے بولی، ’شرم کرو شرم۔ بھائیوں والا گھر ہے۔ اپنی نہیں تو ان کی عزت کی لاج رکھو۔‘
بیٹی نے روتے ہوئے کہا، ’اب کسی کی عزت کی لاج نہیں رکھوں گی۔ بہت سے خواب ہیں میرے، میں انہیں پورا کرکے دکھاؤں گی۔‘
ماں نے کہا، ’عورت کے خواب نیند میں اچھے لگتے ہیں۔ جاگتی آنکھوں سے صرف مرد خواب دیکھ سکتے ہیں، عورت نہیں۔‘
بیٹی کہنے لگی، ’سب سے بڑی دشمن تو تم ہو ہماری۔ ہمیشہ بیٹوں کی پشت پناہی کی، بیٹی کو کبھی اپنی اولاد نہ سمجھا، پرایا دھن سمجھ کر پالا۔ میں جا رہی ہوں۔‘
ماں نے کہا، ’رکو، نجیب صاحب کی بیوی کو ساتھ لے جاؤ۔‘
میرا نام آیا تو میں چونک گئی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اتنے میں وادیہ میرے پاس آئی اور کہا، ’خالہ، میں مکتب جانا چاہتی ہوں میرے ساتھ چلیں گی؟‘
میں ساتھ چل دی۔ راستے میں کھیلتے بچوں میں سے بیٹی کو ساتھ لے لیا۔ ہم مکتب پہنچے۔ مکتب کیا تھا چھ کرسیاں، ایک میز چیرٹی والے کمرے میں رکھی ہوئی تھیں اور وہاں ضرورت سے زیادہ خواتین جمع تھیں۔
وادیہ بےحد خوش تھی۔ کہنے لگی، ’میرا بہت بڑا خواب آج پورا ہو گیا۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ میں بھی سکول جاؤں گی۔‘
ایک اور لڑکی جو وادیہ کی ہم عمر ہوگی یعنی کہ یہی کوئی 13، 14 سال کے آس پاس، وہ بھی اتنی ہی پرجوش تھی۔ کہنے لگی، ’میرا ارمان تھا کہ سکول کی عمارت کو اندر سے دیکھ سکوں۔‘
وہاں ایک 70 سالہ دادی بھی بیٹھی تھی جو اپنی 12 سالہ پوتی کو ساتھ لائی تھی۔ کہنے لگی، ’حاجرہ کے ساتھ آتی ہوں تو اب میں بھی سیکھنے لگی ہوں۔ رات کے وقت ہم دونوں دادی پوتی انگریزی کی مشق کرتے ہیں۔ یخ چال کو ریفریجریٹر کہتے ہیں، کلچوں کو کوکی، چائے کو ٹی۔ وہ انگلیوں پہ سارے یاد کیے لفظ گن کر دہرانے لگیں۔ لڑکیاں ہنس رہی تھیں، مگر دادی نے کہا، ’پڑھنے میں کیسی شرم؟‘
ایک نوجوان شادی شدہ فارسی دان خاتون ایک سالہ بیٹی کو گود میں لائی ہوئی تھیں۔ کہنے لگی، ’یہاں کلاس کا کوئی مزہ نہیں ہے۔ ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے کبھی سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک لفظ بھی مشکل سے یاد کرتی ہیں اور ایسی بھی ہیں جن کو انگریزی کے لفظ تو آتے ہیں مگر جملے بنانا نہیں آتے۔‘
اس نے کہا، ’میں تو سرکاری سکول میں استانی تھی سوچا یہاں انگریزی بولنا سیکھ جاؤں گی مگر یہ تو لغت سکھا رہے ہیں۔‘
کلاس شروع ہوئی تو ریاست کیرولائنا کی بھورے بالوں والی خاتون نے پڑھانا شروع کیا جس نے پاکستانی شلوار قمیص اور دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ میرے لیے حد درجہ بورنگ تھی اور میری بیٹی میری گود میں یہ کہتے ہوئے سر رکھ کر سو گئی کہ اتنے آسان لفظ بھی اتنی بڑی بڑی عورتوں کو نہیں آتے۔
اس بیچاری کو کیا پتہ کہ ہمارے ملک میں تعلیم بھی لڑکیوں کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔ شہروں میں جہاں سکول ہیں وہاں آئے روز دھماکے ہوتے تھے اور گاؤں میں سکول ہیں مگر استانیاں نہیں۔ کہیں تو لڑکیوں کو پڑھانا ہی شرم سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کہ امریکہ آنے والی خواتین آٹے میں نمک کے برابر ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان تعلیم یافتہ خواتین میں بھی زیادہ تر ہزارہ اور تاجک ہیں، پشتون خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر سمجھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو پشتون لڑکیاں اس انگریزی سینٹر آئیں وہ بھی گھر سے لڑ جھگڑ کر، بغاوت کر کے۔ وادیہ کے گھر اس رات نوک جھونک لڑائی میں بدل گئی۔ ہمسایوں کا لحاظ نہ ہوتا تو شاید وادیہ کو مارا پیٹا بھی جاتا۔
اس کے بھائی نے کہا، ’انگریزی سیکھ کر کیا کرو گی، کوئی فائدہ بتاؤ مجھے؟‘
دوسرے نے کہا، ’گھر سے نکلنے کے بہانے ہیں بس۔‘ تیسرے نے کہا، ’انگریز یار رکھو گی کیا؟‘
یہ بات سنتے ہی لڑکی چلائی اور کہا، ’پشتو بھی تو جانتی ہوں کیا پشتون یار رکھا؟ نہیں نا، پھر ایسی واہیات بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
اس بیچاری کو کیا پتہ کہ ایسی واہیات باتیں کرکے لڑکیوں کو جذباتی کیا جاتا رہا تاکہ وہ ہار مان جائیں اور نام نہاد عزت کی خاطر تعلیم کو خیر باد کہہ دیں۔ آخر ملبہ سارا وادیہ کی ماں پہ گرا۔ میں نے خود رات گئے ان ماں بیٹیوں کی سسکیاں سنیں اور عہد کر لیا کہ میں ان کے لیے تعلیم کے راستے ہموار کروں گی۔
وہ تو سو گئیں مگر میرے دماغ میں تعلیم کی افادیت پر لیکچر تیار ہو رہا ہے تاکہ میں وادیہ کی ماں کے ذریعے اس کے باپ اور بھائی کو پیغام دے سکوں کہ ایک مرد کو پڑھانا ایک فرد کو پڑھانا ہے جبکہ ایک عورت کو پڑھانا سارے خاندان کو پڑھانا ہے۔
آپ سے بھی درخواست ہے کہ اگر ہو سکے تو میری مدد کریں کوئی ایسا جملہ لکھیں جس سے تعلیم نسواں کی اہمیت اجاگر ہو تاکہ افغان خواتین پہ بھی تعلیم کے دروازے کھل سکیں، جس سے تعلیم نسواں کی اہمیت اجاگر ہو تاکہ افغان خواتین پہ بھی تعلیم کے دروازے کھل سکیں۔