یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے روس پر الزام لگایا ہے کہ ان کی افواج ملک کے مشرقی علاقوں لوہانسک اور دونبیس میں نسل کشی کر رہی ہیں۔
ایک ویڈیو پیغام میں یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ روسی سرحد سے منسلک یوکرینی شہروں میں حالات ’بہت مشکل‘ ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر زیلنسکی نے کہا: ’روسی سرحد کے قریب شہروں دونیتسک اور لوہانسک میں روسی سب کو جمع کرتے ہیں تاکہ مارے جانے والوں اور زخمیوں کی جگہ پُر کی جا سکے۔‘
انہوں نے کہا: ’یہ سب بشمول ہمارے لوگوں کو جلاوطن کرنا اور ان کا اجتماعی قتل کرنا روس کی جانب سے نسل کشی کی پالیسی ہے۔‘
یاد رہے کہ دونبیس پر 2014 سے ماسکو نواز علیحدگی پسند گروپس کا کنٹرول ہے لیکن اب بظاہر روس خود تمام خطے پر کنٹرول حاصل کر رہا ہے۔
صدر زیلنسکی نے اپنے ویڈیو پیغام میں مزید کہا: ’جیسا کہ توقع تھی دونبیس میں صورت حال بہت مشکل ہے۔‘
صدر زیلنسکی نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’قابضین جنگ کے 100 دنوں میں وہ حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں جو وہ 24 فروری کے بعد پہلے چند روز میں کرنا چاہتے تھے۔‘
صدر زیلنسکی کے مطابق اس خود ساختہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے روس نے ’دونبیس میں زیادہ توپ خانے اور کمک بھجوا دی ہے۔ وہاں میزائل حملے ہوائی جہاز سب ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس نے ہمیشہ سے خود پر یوکرین میں نسل کشی کا الزام مسترد کیا ہے اور یوکرین پر حملے کی وجہ مشرقی علاقوں میں روس نواز آبادی کی یوکرینی حکومت کے ہاتھوں نسل کشی بتایا تھا۔
یہ وہی الزام تھا جو روسی صدر ولادی میر پوتن نے رواں سال کے آغاز میں 24 فروری کو اپنے طویل ٹیلی وژن خطاب میں لگایا جس کے فوری بعد یوکرین پر چڑھائی ہوئی۔
روسی صدر کا خطاب روس کے سرکاری میڈیا بشمول آر ٹی نے نشر کیا تھا۔
یورپی بریڈ باسکٹ سے گندم کی فراہمی معطل
یوکیرن کو گندم سمیت دیگر اجناس کی کثیر برآمدات کے وجہ سے ’یورپ کی بریڈ باسکٹ‘ کہا جاتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق حملے کے آغاز سے تاحال یورپ کو اجناس کی برآمدات معطل ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کا مسئلہ اور قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تاہم روس نے الزامات مسترد کرتے ہوئے مغربی ممالک کو ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ یوکرینی ساحلوں سے اجناس سے لدے جہازوں کو روانہ ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے اٹلی کے وزیر اعظم ماریو دراغی سے فون پر بات کرتے ہوئے پیشکش کی تھی کہ اگر روس پر لگی پابندیاں ہٹا دی جائیں تو وہ خوراک کا بحران ٹالنے میں ’نمایاں کردار‘ ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن امریکہ نے اس پیش کش پر طنزیہ رویہ اختیار کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا: ’اب وہ معیشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ خوراک کو ہتھیار بنا رہے ہیں۔ وہ معاشی تعاون کو ہتھیار بنا رہے ہیں۔‘
کربی نے مزید کہا: ’میرے خیال میں ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے تمام اشیا کو ہتھیار بنا لیا ہے۔ حتی کہ معلومات اور جھوٹ کو بھی۔‘