الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی تفصیلات جاری کردی ہیں تاہم بلوچستان میں نئی حلقہ بندیوں کو حکومتی اراکین اسمبلی نے مسترد کرتے ہوئے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بعض علاقوں میں عوام نے حلقوں میں تبدیلی کے خلاف احتجاج کا عندیہ بھی دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں 362 سے کم ہو کر 336 ہوگئی ہیں۔
قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 266 جبکہ خواتین کی نشتوں کی تعداد 60 ہوگی۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں اضافہ کرکے ان کی تعداد 14 سے اب 16 کردی گئی ہے۔
صوبائی اسمبلی بلوچستان کی جنرل نشستیں 51 جبکہ مجموعی تعداد 65 ہوگی۔
قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بلوچستان میں سات لاکھ 20 ہزار 946 ووٹرز پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ صوبائی اسبملی کا ایک حلقہ دو لاکھ 41 ہزار 864 ووٹرز پر مشتمل ہوگا۔
اسی طرح بلوچستان کا پہلا حلقہ این اے 251 اور آخری حلقہ این اے 266 ہوگا۔
نئی حلقہ بندیوں پر سب سے بڑا اعتراض بلوچستان کے خیبر پختونخوا سے متصل سرحدی علاقے شیرانی کے عوام نے کیا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کے ضلع کو الگ حلقہ قرار دیا جائے۔
سیاسی امورپر نظر رکھنے والے پشتون زبان کے مصنف اور جمعیت طلبہ اسلام (شیرانی) کے سابق ضلعی جنرل سیکریٹری عبدالکریم کڑمانزئی کہتے ہیں کہ یہ ضلع ہر طرح سے الیکشن کمیشن کے معیار پر پورا اترتا ہے۔
عبدالکریم کڑمانزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ حلقہ پہلے پی بی 18 کہلاتا تھا، جو عبداللہ زئی، کبزئی اور بابڑ شیرانی پر مشتمل تھا۔ گذشتہ انتخابات میں اس کو پی بی ون کا نام دیا گیا۔ اس میں موسیٰ خیل کو بھی شامل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت بھی لوگوں نے اس حلقے میں تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے اور بلوچستان ہائی کورٹ، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ تک گئے۔ لیکن اس کے باوجود انتخابات اسی حلقے کے مطابق کیے گئے۔ آواران کی آبادی ایک لاکھ 22 ہزار ہیں پھر بھی علیحدہ صوبائی حلقہ دیا گیا ہے جبکہ شیرانی کی آبادی ایک لاکھ 53 ہزار ہیں تو اسے الگ حلقہ کیوں نہیں مل سکتا؟‘
کریم کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے جو معیار حلقے کے لیے مقرر کیا ہے اس کے مطابق شیرانی کا علاقہ اس پر پورا اترتا ہے۔ آواران کی آبادی ایک لاکھ 50 ہزار سے کم ہے۔ شیرانی کی ایک لاکھ 53 ہزار سے زائد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرا مسئلہ شیرانی ایک پہاڑی سلسلوں اور وسیع 2800 مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل علاقہ ہے۔ اس میں کوہ سیلمان، شین غر کے مشہور سلسلے بھی واقع ہیں، جن میں چلغوزے اور زیتون کے قدرتی درخت بھی پائے جاتے ہیں۔
کریم کا کہنا تھا کہ عوام کا مطالبہ ہے کہ شیرانی کا حلقہ وسیع ہے اور اس کے مسائل کا حل ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ پی بی 18 شیرانی اور قومی اسمبلی کی نشست این اے 264 کے حلقے میں جمعیت علمائے اسلام اور جے یو آئی نظریاتی کا مضبوط ووٹ بینک ہے۔
کریم کا مزید کہنا تھا: ’اس حلقے سے اکثر جمعیت کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں، جن میں مولانا محمد شیرانی بھی شامل ہیں۔ لیکن اس علاقے کے مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ‘
انہوں نے کہا کہ عوام کو خدشہ ہے کہ ایک پسماندہ علاقے کے ساتھ دوسرے پسماندہ علاقے کو شامل کرنے سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔
ان کا مطالبہ ہے کہ ضلع ژوب، جس کی آبادی تین لاکھ سے زائد ہے، اس کو دو حلقوں میں تقسیم کرکے شیرانی کو الگ حلقہ بنایا جائے۔
کریم نے کہا کہ یہاں کے سیاسی اور عوامی حلقے ژوب کے جو علاقے شیرانی کے ساتھ ملا کر حلقے میں شامل کیے گئے ان کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سابقہ ادوار کے تجربات کو مد نظر رکھا جائے تو ہم نے دیکھا کہ جب 2008 کے انتخابات میں جے یو آئی (نظریاتی) کے رہنما عبدالخالق بشر دوست نے کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حلقہ بڑا ہے اور مسائل کے حل میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کریم کہتے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود شیرانی میں سڑکوں، تعلیم، صحت اور پینے کے پانی کے مسائل حل طلب ہے۔ آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے پاس ویسے فنڈز کی کمی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیرانی کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز اور سول سوسائٹی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں کے خلاف بڑے احتجاج اور الیکشن کمیشن سے رجوع کا عندیہ دیا ہے۔ مطالبات کی عدم منظوری پر احتجاج اور سڑکوں کو بند بھی کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کریم نے بتایا کہ حلقہ بندی میں جغرافیائی لحاظ سے درست منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور اکثر علاقے جو شیرانی سے منسلک ہیں وہ دور دراز واقع ہیں۔ صرف بابڑ کے علاقے کی سرحد کچھ ملتی ہے۔ بعض علاقے مشرق اور بعض جنوب میں واقع ہیں۔
’قانونی چارہ جوئی‘
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی حلقہ بندیوں پر ممبران اسمبلی نے اعتراضات اٹھائے اور ان کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی قادر علی نائل نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں سے تمام منتخب نمائندے متاثر ہوئے ہیں۔ ’میرے حلقے میں 50 ہزار سے زائد لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔‘
بی این پی سے تعلق رکھنے والے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ حلقے بڑھانے کی بجائے پہلے سے موجود حلقے توڑ کر دوسرے حلقوں میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف ہم قانونی چارہ جوئی کریں گے۔
بارکھان سے تعلق رکھنے والے سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے کہا کہ حلقوں کی تقسیم درست نہیں کی گئی۔ قومی اسمبلی میں بارکھان کو ضلع لورالائی میں شامل کیا گیا۔ اس تقسیم کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کے تجزیہ کار اور سیاسی حلقہ بندیوں پر نظر رکھنے والے صلاح الدین صفدر کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کو جاری کرنے کا مقصد ان پر اعتراضات کو سامنے لانا ہے۔
صلاح الدین صفدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کے جاری ہونے کے بعد اس پر اعتراضات لیے جاتے ہیں جن کے جائز اعتراضات کو دور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں ایسا نہیں ہوتا کہ اسلام آباد کا بندہ کوئٹہ کے حلقے پر اعتراض کرے بلکہ اسی علاقے کا ہی بندہ کرسکتا ہے۔
صلاح الدین کہتے ہیں کہ حلقوں پر امیدواروں کی طرف سے اعتراض اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ ان کے ووٹ بینک پر فرق پڑے گا۔
بعض اوقات ایک حلقے کا آدھا حصہ ایک جگہ اور دوسرا دوسرے ضلع میں شامل ہوتا ہے۔ اس بار بھی کچھ جگہوں پر ایسا ہوا ہے
انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیاں ایک سے زیادہ اضلاع کو ملا کر بھی کی جاتی ہیں جس کی قانون میں اجازت ہے۔ اس طرح کی کسی تبدیلی پر الیکشن کمیشن تحریری جواب دے گا۔
صلاح الدین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں رقبہ وسیع اور آبادی دور دراز واقع ہوتی ہے۔ بعض جگہوں پر پہاڑی سلسلے ہوتے ہیں۔ تاہم نئی حلقہ بندیوں پر اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ آبادی کے علاوہ دوسرے عناصر کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حلقے کی تشکیل کے لیے الیکشن کمیشن صوبے کی آبادی کو سیٹوں کی تعداد پر تقسیم کرکے بناتے ہیں جس کے تحت اس حلقے میں اوسط آبادی کا تعین کیا جاتا ہے، جیسے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ایک حلقے میں سات لاکھ سے زائد آبادی ہوسکتی ہے۔
بلوچستان میں پارلیمانی سیاست اور ووٹ بینک اور موروثی نشستوں کے حوالے سے جعفر خان ترین اپنی کتاب ’بلوچستان کا پارلیمانی تناظر‘ میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان میں ووٹ بینک اور سٹریٹ پاور قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی ہے۔
جعفر خان ترین لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے پشتون اور بلوچ حلقوں میں صورت حال مختلف ہے جبکہ دونوں علاقوں میں مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کی غالب اکثریت ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ بلوچ سیاست کو ہم تین خانوں میں بانٹ سکتے ہیں یعنی سخت گیر، نیم سخت گیر اور معتدل جماعتیں۔
بلوچستان میں اکثر مخلوط حکومتیں مسلم لیگی دھڑوں یا پیپلز پارٹی کی قیادت میں بنتی رہی ہیں۔ اس کے پیچھے بہت ساری وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ یہاں قبائلی، لسانی، نسلی تقسیم بہت گہری ہے۔
جعفر مزید لکھتے ہیں کہ 1997 کے انتخابات کے بعد مختصر سی مدت کے لیے سردار اختر مینگل کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم رہی جسے بعد میں ختم کردیا گیا۔
پی بی 18 شیرانی کی نشست جس کی حلقہ بندی پر اعتراضات کیے جارہے ہیں، جعفر ترین اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 2002 کے عام انتخابات میں یہاں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 49509 تھی، جن میں 11395 کاسٹ ہوئے۔ پولنگ کی شرح تقریباً 23 فیصد رہی۔
اگر بات 2013 کے انتخابات کی کی جائے تو اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 68599 تھی، جن میں 23405 ووٹ ڈالے گئے اور شرح 34.24 رہی۔