یہ مرکزی شہر لندن سے ٹرین میں تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ویمبلے نامی جگہ تھی جہاں لندن کے مشہور فٹ بال سٹیڈیم ویمبلے بھی واقع ہے۔
ٹرین سے اتر کر جیسے ہی سٹیشن سے باہر آئے تو ہر دوسری یا تیسری دکان کا انڈین نام تھا۔
یہ دکانیں یا تو شاپنگ کی تھیں اور یا ریسٹورنٹ جہاں ہر قسم کے ساؤتھ ایشین کھانے ملتے تھے۔
ہر طرف ساؤتھ ایشین لوگ آپ کو نظر آتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ لاہور کے کسی بازار یا پشاور کے اندرون شہر کے اندر دکانوں کے بالکل بیچ میں چل رہے ہیں۔
یہ لندن کی انڈین کمیونٹی پر مشتمل جگہ تھی جہاں زیادہ تر لوگ انڈیا کے شہر گجرات سے تھے اور لندن میں جا کر آباد ہوئے تھے۔
انڈیا کے علاوہ اسی علاقے میں ہمیں پاکستان کے شہر لاہور اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھے ملے جو مختلف کاروبار سے وابستہ تھے۔
ہم چونکہ رمضان میں گئے تھے تو اسی علاقے میں گھومنے کی بعد وہاں پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ریسٹورنٹ کھول رکھا تھا تو افطاری ہم نے اسی ہوٹل میں کی۔
ریسٹورنٹ کے مالک نے بتایا ’یہاں پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ رہتے ہیں اور زیادہ تر ہوٹلز یہاں پر حلال کھانے مہیا کرتے ہیں۔اسی علاقے میں یہ لوگ کاروبار بھی کرتے ہیں۔‘
ہم مرکزی روڈ کے فٹ پاتھ پر جا رہے تھے کہ دکانوں کے باہر فٹ پاتھ پر دکانداروں کی جانب سے رکھا گیا سامان دیکھ کر پشاور سے جانے والی ثمینہ ناز نے کہا ’دیکھو لوٹے اور دیگر سامان ایسے پڑا ہے جیسے پاکستان میں دکاندار فٹ پاتھ پر رکھتے ہیں۔‘
ثمینہ ناز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تقسیم ہند سے پہلے چونکہ انڈیا اور پاکستان ایک ہی تھے تو اسی وجہ سے ہمارے کھانے اور دیگر کلچر میں کافی مماثلت موجود ہے۔
اسی علاقے میں باقی لندن سے مختلف کلچر یہ بھی تھا کہ بہت کم دکانوں میں بہت کم چیزوں پر ریٹ چسپاں تھے یعنی فکس قیمتیں نہیں تھی اور اسی وجہ سے پاکستان کی طرح وہاں بھی آپ کوئی چیز خرید کر ان سے بارگین کر سکتے تھے۔