خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتال پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں گذشتہ کئی مہینوں کے دوران سرجری کروانے والوں کی طرف سے انفیکشن کی شکایات آرہی ہیں، جس کی وجہ سے ہسپتال انتظامیہ نے الیکٹیو سروسز کو بند کردیا ہے تاکہ انفیکشن کی وجہ معلوم کی جاسکے۔
ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سید شاہکار احمد کے مطابق یہ انفیکشن سرجری کروانے والے 13 فیصد سے زائد مریضوں میں پایا گیا ہے، جس نے مریضوں کے زخموں کو متاثر کیا ہے۔
ڈاکٹر شاہکار نے بتایا: ’اس ہسپتال نے دسمبر 2020 میں کام شروع کیا ہے جبکہ انفیکشن کے کیسز ستمبر اور اکتوبر 2021 میں آنا شروع ہوئے۔ درمیان میں تھوڑا کنٹرول ہوا اور پھر دوبارہ جنوری اور فروری 2022 میں شکایات آنا شروع ہوئیں اور رواں سال عید کے دنوں میں دوبارہ انفیکشن کیسز آنے شروع ہوگئے۔‘
اسی وجہ سے ڈاکٹر شاہکار کے مطابق تقریباً ایک مہینہ پہلے ہمیں ہسپتال کی الیکٹیو سرجری سروسز کو بند کرنا پڑا جکہ ایمرجنسی سروس میں مریضوں کا علاج معالجہ جاری ہے۔
مزید پڑھیے: خیبرپختونخوا: ڈاکٹروں کا مسئلہ آخر ہے کیا؟
ڈاکٹر شاہکار کے مطابق انفیکشن سے متاثرہ مریضوں میں بچے بھی شامل ہیں، جس کی تعداد 12 ہے اور ان میں سے پانچ بچے شدید انفیکشن کا شکار تھے، جو کئی مہینوں سے انفیکشن کی شکایات کے ساتھ آئے اور ان کا علاج کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر اب تک 300 بچوں کا اسی ہسپتال میں علاج کیا گیا ہے لیکن بچوں میں انفیکشن کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم ہے۔
ڈاکٹر شاہکار نے بتایا: ’انفیکشن سے متاثرہ بڑے اور بچے دونوں ہسپتال آتے تھے اور ان کے ٹانکے کھول کر دوبارہ آپریٹ کیا جاتا تھا تاکہ انفیکشن کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اب تک انفیکشن سے متاثرہ بڑے عمر کے مریضوں میں سے ایک موت بھی واقع ہوئی ہے۔‘
یاد رہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی خیبر پختونخوا میں دل کی بیماریوں کے لیے واحد وقف ہسپتال ہے، جس میں اب تک ہسپتال انتظامیہ کے مطابق 50 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ واحد ہسپتال ہے جہاں پر بچوں کے دل کا آپریشن اور دیگر علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔
یہ کس قسم کا انفیکشن ہے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر شاہکار نے بتایا کہ چونکہ خیبر پختونخوا میں انفیکشن بیماریوں کا کوئی ماہر نہیں ہے، اس وجہ سے ہسپتال انتظامیہ نے آغا خان ہسپتال، شوکت خانم ہسپتال اور لاہور اور کراچی کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں تاکہ انفیکشن کی وجہ معلوم کرسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ماہرین کی ٹیم نے ہسپتال کا دورہ بھی کیا ہے اور آن لائن بھی مختلف نشستیں ہوئی ہیں جس میں ملک بھر سے ہم نے ماہرین سے رابطے کیے تاکہ ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کا کوئی حل نکال سکیں۔
ڈاکٹر شاہکار نے بتایا: ’اب تک کے ماہرین کی ٹیم کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ انفیکشن جراثیم سے پھیلا ہے، جس نے مریضوں کا متاثر کیا ہے، تاہم بچوں کو لگنے والا انفیکشن بڑوں سے الگ ہے اور وہ سیریس انفیکشن ہے جس سے بچے کئی مہینوں تک شدید متاثر ہوئے ہیں۔‘
یہ جراثيم کہاں پائے گئے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہکار نے بتایا کہ ماہرین کی ٹیم کی اب تک کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپریشن روم کے دو تین مقامات پر لگے نلکوں کے پانی میں یہ جراثیم پایا گیا ہے تاہم اس پر مزید کام جاری ہے کیونکہ آپریشن روم میں جو پانی استعمال ہوتا ہے، وہ ہسپتال میں دیگر جگہوں پر بھی ہے لیکن وہاں سے انفیکشن کی شکایات سامنے نہیں آئیں۔
یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا:عوام کی اکثریت صحت کارڈ کے بارے میں نہیں جانتی
انہوں نے بتایا: ’انفیکشن کی شرح تقریباً 13 فیصد ہے جبکہ بین الاقوامی معیار تقریباً پانچ فیصد ہے، یعنی 100 مریضوں میں سے پانچ کو انفیکشن ہونا معمول کی بات ہے، تاہم پاکستان میں چونکہ ماحول اتنا صاف نہیں ہے، اس لیے یہاں بین الاقوامی معیار میں اونچ نیچ آسکتی ہے۔ ہم نے ہسپتال میں پانی کے نظام کو مکمل تبدیل کرنے کا کام جاری کیا ہے تاکہ آپریٹنگ روم میں پانی سے پھیلنے والے جراثیم کی ممکنہ وجہ کو ختم کیا جا سکے۔‘
اسی طرح انہوں نے بتایا کہ ہسپتال کے پانی کے نمونے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کو بھیجے گئے تھے لیکن مجوعی طور پر پانی میں کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا جبکہ ٹی بی کنٹرول سینٹر کو بھیجے گئے نمونوں کی رپورٹ بھی منفی آئی ہے۔
ڈاکٹر شاہکار گردو غبار کو بھی انفیکشن کی ایک ممکنہ وجہ بتاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں کچھ تعمیراتی کام ہو رہے تھے، تو گردو غبار بھی انفیکشن کی ایک وجہ ہو سکتی ہے تاہم اس حوالے سے ہسپتال انتظامیہ ماہرین کے ساتھ رابطے میں ہے اور ہسپتال سے مزید نمونے بھی ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے ہیں، جن کے نتائج چند دنوں میں آجائیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’ہسپتال کی او پی ڈی اور ایمرجنسی سروس کھلی ہے۔ انجیو پلاسٹی اور دیگر ایمرجنسی سروسز بند نہیں ہیں اور مریض آکر علاج کروا سکتے تاہم الیکٹیو سروسز اور وہاں کے آپریشن تھیٹرز کو بند کردیا گیا ہے اور جوں ہی ہسپتال کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو الیکٹیو سروسز کو بھی آئندہ دنوں میں کھول دیں گے۔‘
ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے لیے گئے اقدامات کے حوالے سے ڈاکٹر شاہکار نے بتایا کہ ’ہم نے بھرپور کوشش کی ہے کہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو آپریشن تھیٹر فلور سے دور رکھا جائے جبکہ ابتدا سے ہی ہم نے انفیکشن والے مریضوں کو آئسولیٹ کرنے اور ان کے الگ آپریشن تھیٹر کا بندوبست کر رکھا تھا۔‘
دل کے آپریشن کے بعد انفیکشن کتنا خطرناک ہے؟
ڈاکٹر عمران خان ہارٹ سرجن ہیں اور ماضی میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں خدمات ادا کر چکے ہیں اور آج کل پیرس کے ایک ہسپتال میں کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دل کے آپریشن کے بعد زخموں میں ہونے والے انفیکشن کو طب کی اصطلاح میں Deep Sternal Wound Infection کہتے ہے اور اوپن ہارٹ سرجری کے مریضوں میں اس انفیکشن کا خطرہ پانچ فیصد تک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انفیکشن کی شدت کا انحصار مریض کی عام صحت پر ہوتا ہے یعنی اگر مریض کو ذیابیطس یا ایسی کوئی بیماری ہو تو انفیکشن کی شدت زیادہ ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر عمران نے بتایا: ’انفیکشن کے بعد تحقیق کے مطابق ایسے مریضوں میں اموات کی شرح تقریباً دس فیصد ہے۔ انفیکشن سے متاثرہ مریضوں کو عموماً لمبے عرصے تک وینٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے یا انفیکشن سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر عمران کے مطابق ہسپتالوں میں انفیکشن کا پھیلاؤ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے معیاری سے معیاری ہسپتال میں بھی ہو سکتا ہے اور اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ضروری بات یہ ہے کہ انتظامیہ انفیکشن پر قابو پانے کے لیے کس طرح کے اقدامات کر رہی ہے۔