سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی کی خبریں گردش میں ہیں۔ پرویز مشرف 2016 میں جب بیرون ملک روانہ ہوئے تھے تو اُن پر متعدد کیسز تھے، جن میں بعد ازاں وہ مفرور و اشتہاری قرار پائے تھے، کیا وطن واپسی پر گرفتار ہوئے بغیر ان تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے گا؟
واضح رہے کہ پرویزمشرف بےنظیر بھٹو قتل کیس، ججز نظربندی کیس اور لال مسجد عبد الرشید غازی کیسز میں اشتہاری ہیں۔ یہ تمام کیس اب عدم حاضری اور عدم پیروی پر داخل دفتر ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کیس میں مفرور ہو اور عدالت اشتہاری ہونے کا اعلان کر دے تو وطن واپسی پر ایسے شخص کی ایئر پورٹ پر گرفتاری ہوتی ہے۔
اس حوالے سے وزارت داخلہ میں موجود سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ ’پرویز مشرف کی وطن واپسی کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے کاغذی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ کیونکہ قانون کے مطابق جب تک پرویزمشرف کے آنے سے قبل قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جائیں گے، اشتہاری ہونے کی وجہ سے وطن واپسی پر ان کی گرفتاری ہو سکتی ہے یا پھر ہسپتال یا گھر کو سب جیل کا درجہ ملنے پر انہیں وہاں منتقل کیا جا سکتا ہے۔‘
قانونی ماہرین کی رائے
پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے انڈپینڈنٹ اردو نے کہا کہ پرویز مشرف جب 2013 میں پاکستان آئے تو تین کیسز (بےنظیر قتل کیس، ججز نظربندی کیس اور بگٹی قتل کیس) میں سندھ ہائی کورٹ سے انہوں نے حفاظتی ضمانت لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بےنظیر قتل کیس اور ججز نظر بندی کیس میں چونکہ وہ دوران ٹرائل بیرون ملک چلے گئے تھے اس لیے اس میں وہ عدالت کی طرف سے اشتہاری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آرٹیکل چھ کے مقدمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ ’چونکہ درخواست گزار نے سرینڈر نہیں کیا اور طبی مسائل کی بنیاد پر وہ ملک سے باہر ہیں اس لیے عدالت میں سرینڈر نہیں کر سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ پرویز مشرف کا کیس ان کی غیر موجودگی میں سُنا جا سکتا ہے یا نہیں، اس لیے اس معاملے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ تب سے نہ لارجر بینچ بنا اور نہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہوا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پرویزمشرف کی حفاظتی راہداری ضمانت کے لیے نہ ہم سے رابطہ کیا گیا اور نہ ہم کوئی قانونی کاغذی کارروائی کر رہے ہیں۔ ’چونکہ پہلے بھی سیاسی بنیادوں پر یہ کیس بنا تھا اور اب سیاسی ہی بنیادوں پر معاملہ حل ہو رہا ہے اس لیے پرویز مشرف کی صحت کو دیکھتے ہوئے ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پرویز مشرف کی صحت کی صورت حال کسی عدالتی کارروائی یا گرفتاری کے لیے بالکل موزوں نہیں ہے۔ ان کو انسانی بنیادوں پر سہولت مہیا کی جائے گی، عدالتوں کے معاملات ابھی زیر بحث نہیں آئے۔‘
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’قانونی نکات بھی تب پورے ہوتے ہیں جب ملزم صحت مند ہو۔ جب حکومت کو اعتراض نہیں اور اگر وہ اشتہاری بھی ہیں تو وطن واپس آ رہے ہیں بھاگ تو نہیں رہے اس لیے ایسی صورت میں گرفتاری نہیں ہو گی اور نہ ہی گھر جو سب جیل قرار دیا جائے گا انہوں نے کہا کہ گھر کو سب جیل کا درجہ تب دیا جاتا ہے جب ملزم کے فرار ہونے کا خدشہ ہو۔‘
جبکہ دوسری جانب سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پرویز مشرف کے وکلا کو اُن کی آمد سے قبل جن عدالتوں میں اُن پر کیسز ہیں، وہاں سے حفاظتی راہداری ضمانت حاصل کرنا ہو گی۔ جس کے بعد وہ قانونی طور پر گرفتاری سے محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ وطن واپس تو آ سکتے ہیں لیکن بغیر قانونی کاغذی کارروائی کے کوئی بھی شہری درخواست دے سکتا ہے کہ یہ اشتہاری ہیں اور انہیں حراست میں لیا جائے۔‘
پرویز مشرف کس کیس میں سزا یافتہ ہوئے؟
پرویز مشرف صرف ایک کیس میں سزا یافتہ ہوئے جو کہ آرٹیکل چھ کے تحت بننے والی خصوصی عدالت تھی۔ خصوصی عدالت کا قیام 2013 میں ہوا جبکہ دسمبر 2013 سے باضابطہ ٹرائل کاآغاز ہوا تھا۔ 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جُرم عائد ہوئی جس کے بعد گواہوں پر جرح کی گئی اور کیس چلتا رہا۔ اسی دوران والدہ کی بیماری کی وجہ سے پرویز مشرف نے نام ای سی ایل سے نکلوانے کی استدعا کی اور انسانی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ حاصل کر کے مارچ 2016 میں دبئی روانہ ہو گئے۔
ٹرائل مکمل ہونے کے بعد خصوصی عدالت کا فیصلہ جو دسمبر 2019 میں جاری ہوا جسے جسٹس وقار سیٹھ نے لکھا۔ انہوں نے پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی اور پیراگراف 66 میں قرار دیا کہ اُن کی موت بیرون ملک واقع ہونے کی صورت میں اُن بھی اُن کے جسد خاکی کو ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔ اس فیصلے کے بعد آئی ایس پی آر سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور عدالت سے اس فیصلے کے متعلقہ پیراگراف کو خدف کرنے کے لیے رجوع بھی کیا گیا تھا۔
بعد ازاں پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ جج نے جو اصطلاحات استعمال کی ہیں وہ تعصب پر مبنی ہیں۔ اس کے علاوہ خصوصی عدالت کی تشکیل پر بھی سوالات اُٹھائے گئے تھے کہ یہ قانون کے مطابق نہیں اور کیس میں پرویز مشرف کو دفاع کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے لیے فُل کورٹ بینچ تشکیل دیا اور بینچ نے جنوری 2020 کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے مزید یہ کہ کسی بھی ملزم کی عدم موجودگی میں اس کا ٹرائل کرنا غیراسلامی، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
پاکستان بار کونسل نے فروری 2020 میں خصوصی عدالت کے قیام کو غیر آئینی قرار دینے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جو تاحال زیر التوا ہے اور سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا۔
پرویزمشرف کے مزید زیر التوا کیسز کون سے ہیں؟
- ججزنظر بندی کیس کا 2009 میں مقدمے کا اندراج ہوا تھا اور جون 2013 میں پرویز مشرف پر فرد جرم عائد ہوئی۔ پرویزمشرف پر الزام تھا کہ انہوں نے 60 ججوں کو غیر آئینی حراست میں لیا تھا اور تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا۔ فروری 2017 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو عدم حاضری کی بنا پر مفرور ظاہر کر دیا۔
- بےنظیر قتل کیس میں ایف آئی اے نے 2010 میں پرویز مشرف کو نامزد کیا تھا۔ عدالت نے جب اگست 2017 میں فیصلہ سنایا تو فیصلے میں عدالت نے پرویز مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے پیش نہ ہونے پر سابق صدرکو اشتہاری قرار دے دیا تھا اور مقدمہ ان کی غیر حاضری پر داخل دفتر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ قرار دیا گیا کہ ملک واپسی پر کیس ری اوپن کیا جائے اور پرویز مشرف کا اس کیس میں علیحدہ ٹرائل ہو۔
- 2013 میں لال مسجد کے خطیب عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کا اندراج ہوا۔ جبکہ عبدالرشید غازی کے بیٹے حافظ ہارون رشید نے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت میں موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پرویز مشرف کو اس کیس میں شامل نہیں کیا جاسکتا، لال مسجد ریاست کا آپریشن تھا، قتل کیس نہیں، اگر ریاستی آپریشن کو قتل کیس بنایا گیا تو فورسز آئندہ آپریشن میں حصہ نہیں لیں گی۔‘ اس کیس کا ٹرائل بھی پرویز مشرف کی عدم حاضری کی وجہ زیر التوا ہے۔
- بگٹی قتل کیس میں عدالت نے جنوری 2016 میں پرویز مشرف کو بری کر دیا تھا۔ پرویزمشرف کے وکیل نے عدالت میں موقف دیا تھا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی موت فوجی آپریشن کے دوران ہوئی تھی اس واقعے کو ایک حادثہ کے طور پر قبول کیا جائے۔