پاکستان کو بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو چار سے 16 گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ بجلی کا شارٹ فال 7200 میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے جبکہ پیداوار 20 ہزار میگا واٹ ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان 2022 کے مطابق پاکستان پانی سے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع سے مالا مال ہے اور ہائیڈرو یعنی پانی سے بجلی پیدا کرنے کی استعداد 60 ہزار میگا واٹ ہے لیکن اس وقت پاکستان اس استعداد کا صرف 16 فیصد استعمال کر رہا ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت زیادہ ہے جس میں ٹرانسمیشن لائینز کی تنصیب کے ساتھ ساتھ متاثرہ لوگوں کی آباد کاری شامل ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہائیڈرو کے جو منصوبے لگ چکے ہیں ان کی مجموعی استعداد 10250 میگا واٹ ہے جو پاکستان میں بجلی کے تمام موجودہ فنکشنل ذرائع کا 25 فیصد ہے۔
پاکستان کتنا پانی ضائع کرتا ہے؟
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان ہر سال 22 ارب ڈالر کا پانی استعمال کیے بغیر سمندر میں پھینک دیتا ہے۔ اگر پاکستان نے پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع کو جنگی بنیادوں پر نہ بڑھایا تو اس کے لیے گندم، چاول، گنا اور کپاس جیسی فصلوں کی کاشت کے لیے پانی پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان کے پانی کے ذرائع میں سب سے بڑا حصہ برف اور گلیشئرز کا ہے جو 65 سے 75 فیصد ہے اور بارش کا حصہ 25 سے 35 فیصد ہے۔ پاکستان کو دریائوں سے سالانہ 14.5 کروڑ ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے۔ اس میں سے وہ صرف 10 فیصد ذخیرہ کرتا ہے اور باقی سمندر کی نظر کر دیتا ہے۔ جبکہ بھارت ستلج، بیاس اور راوی سے سالانہ 3.2 کروڑ ایکڑ فٹ حاصل کرتا ہے اور اس کا 35 فیصد ذخیرہ کرتا ہے۔
ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 15 ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی شدید کمی ہو سکتی ہے، جبکہ پاکستان سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں بجلی کے موجودہ ذرائع
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے میں سب سے زیادہ حصہ تھرمل کا ہے جو 61 فیصد ہے۔ تھرمل میں تیل، گیس اور کوئلہ وغیرہ شامل ہیں۔
اکنامک سروے کے مطابق پانی سے بجلی پیدا کرنے کی شرح جو مالی سال اپریل تا جولائی 2021 میں 27.8 فیصد تھی وہ 2022 کے اسی عرصے میں کم ہو کر 23.7 فیصد رہ گئی تاہم ایٹمی بجلی کی شرح 7.2 فیصد سے بڑھ کر 12.35 فیصد ہو گئی۔
اسی طرح قابل تجدید توانائی کی شرح بھی 2.4 فیصد سے بڑھ کر 3.02 فیصد ہو گئی۔
پاکستان پانی سے کس قدر بجلی پیدا کر سکتا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو واپڈا کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی ممکنہ استعداد 70065 میگا واٹ ہے، جس میں سے دریائے سندھ سے 44188 میگا واٹ، گلگت بلتستان کے نالوں اور دریائوں سے 4565 میگا واٹ اور کوہستان سے 4094 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح صرف دریائے سندھ سے تربیلا ڈیم کے علاوہ 52487 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ دریائے جہلم کے معاون دریائوں سے 9003 میگا واٹ، دریائے کنہار سے 1610 میگا واٹ، دریائے چناب سے 310 میگا واٹ، چترال، سوات، دریائے کابل اور ان کے معاون دریائوں سے 5368 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر، پنجاب کی نہروں اور صوبہ سندھ میں بھی 927 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
پانی سے بجلی کی پیداوار کے حوالے سے سب سے زیادہ مالا مال صوبہ خیبر پختونخوا ہے جہاں سے 27131 میگا واٹ اور دوسرے نمبر پر گلگت بلتستان، جہاں سے 26340 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واپڈا اس سلسلے میں کیا کر رہا ہے؟
دریائے سندھ میں واپڈا کے جو منصوبے مکمل ہیں ان میں تربیلا، تربیلا کا چوتھا توسیعی منصوبہ، غازی بروتھا، چشمہ اور جناح بیراج کے منصوبے شامل ہیں اور ان کی بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 6618 میگا واٹ ہے۔
داسو اور دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں جن کی پیداواری صلاحیت 8820 میگا واٹ ہے۔ کالا باغ ڈیم کا مکمل انجینیئرنگ ڈیزائن بن چکا ہے اور اس سے 3600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ تربیلا کے پانچویں توسیعی منصوبے اور گلگت بلتستان میں بونجی کا بھی مکمل انجینیئرنگ ڈیزائن بن چکا ہے جن کی پیداواری صلاحیت بالترتیب 1410 اور 7100 میگا واٹ ہے۔
اسی طرح تھاکوٹ ایک سے تین تک جس کی پیداواری صلاحیت 4800 میگا واٹ ہے اس کی فزیبلٹی سٹڈی پر کام جاری ہے جبکہ شایوک گلگت بلتستان 640 میگا واٹ کی فزیبلٹی سٹڈی مکمل ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں یلبو2800، تنگاز 2200، سکردو 1500، تھورگنار 600، سرمک اور کھرمنگ 1100 میگا واٹ کی منصوبوں کی جگہوں کی نشاندہی ہو چکی ہے اور ان میں سے بعض کے ڈیزائن بھی مکمل ہیں۔
واپڈا کے قلیل مدتی اور ترجیحی منصوبے
پاکستان میں اس وقت پانی سے بجلی پیدا کرنے کے 11 منصوبے ایسے ہیں جن پر کام یا تو شروع کیا جا چکا ہے یا پھر ان پر کام شروع کرنے کے اوقات کا تعین ہو چکا ہے۔ ان منصوبوں سے مجموعی طور پر 13891 میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی اور ان پر لاگت کا تخمینہ 3.5 کھرب روپے ہے۔
کرم تنگی اور مہمند ڈیم جن کی پیداواری صلاحیت بالترتیب 18.9 اور 800 میگا واٹ ہے وہ 25-2024 میں مکمل ہو جائیں گے۔ دیمامر بھاشا ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 4500 میگا واٹ ہے جسے 29-2028 میں مکمل ہونا ہے اور اس پر لاگت کا تخمینہ 1.5 کھرب روپے ہے۔
داسو سٹیج ون پر لاگت کا تخمینہ 486 ارب روپے ہے اور اسے 27-2026 میں مکمل ہونا ہے۔ اس سے 2160 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکے گی۔ کیال، کرم تنگی، چنیوٹ، تھاکوٹ تھری، داسو ٹو، وزیر آباد اور پتن کے منصوبوں سے 6412 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی اور یہ منصوبے بھی 2026 سے 2032 تک مکمل ہوں گے۔
اسی طرح 2031 سے 2042 تک نو منصوبے مکمل کیے جائیں گے جن کی پیداواری صلاحیت 16724 میگا واٹ ہو گی۔
2041 سے 2050 تک 14 منصوبے مکمل کیے جائیں گے جن کے ذریعے 11176 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
پاکستان میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کی قیمت
عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یکم جولائی سے بجلی کا فی یونٹ تقریباً 25 روپے کا ہو جائے گا۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2013 میں 450 ارب روپے تھا جو 2018 میں 1.1 کھرب روپے تک پہنچ چکا تھا۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی کے مطابق مارچ 2022 میں یہ قرضہ بڑھ کر 2.4 کھرب روپے ہو چکا ہے جو پاکستان کے کل جی ڈی پی کا 3.8 فیصد ہے اور حکومت پاکستان کے کل قرضوں کا 5.6 فیصد ہے۔ اگر یہ قرضہ اسی طرح بڑھتا رہا تو 2025 میں یہ بڑھ کر چار کھرب روپے ہو جائے گا۔
پاکستان میں چونکہ گیس سے بھی بجلی بنتی ہے اس لیے گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ جو کہ 2018 میں 350 ارب روپے تھا وہ اب بڑھ کر 650 ارب روپے ہو چکا ہے ۔ پچھلے مالی سال میں تیل کا در آمدی بل 8.69 ارب ڈالر تھا جو اس سال بڑھ کر 17.03 ارب ڈالر کو پہنچ گیا ہے جس کی ایک وجہ عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اس سال گذشتہ سال کے مقابلے میں 24.18 فیصد سے زائد تیل خریدا ہے جبکہ ایل این جی کی درآمد میں بھی 39.86 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایل این جی کی خریداری پر قومی خزانے سے 3.4ارب ڈالر ادا کیے گئے ہیں۔
اسی طرح کوئلے سے جو بجلی پیدا ہورہی ہے اس کا 75 فیصد کوئلہ باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔
مائیکرو اکنامکس انسائٹز کے سربراہ اور عمران خان حکومت کی معاشی ٹیم کے سابق رکن ثاقب شیرانی کے بقول 2007 سے 2020 کے دوران پاکستانی معیشت کو پاور سیکٹر نے جو نقصان پہنچایا ہے اس کا تخمینہ 82ارب ڈالر ہے۔