معروف بزنس مین سیٹھ عابد کی 62 سالہ بیٹی کے مبینہ قتل کا کیس اب لاہور کے انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس وقت انویسٹی گیشن ونگ کو انتظار ہے فرح مظہر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا تاکہ کیس کی کارروائی آگے بڑھائی جا سکے۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ونگ کامران عادل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم فرح مظہر کے پوسٹ مارٹم اور پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی (PSFA) کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں جو امید ہے ایک سے دو دن میں آجائیں گی۔ ہم نے ویسے پی ایس ایف اے کو صبح بھی کہا ہے کہ وہ جلد اپنی فائنڈنگز ہمیں بھیجیں۔ ان رپورٹس سے معلوم ہو گا کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ کتنی گولیاں لگیں، زخم کیسا ہے کس زاویے سے گولی لگی؟ اس کے بعد ہم ایک ذمہ دارانہ نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔‘
کامران عادل نے بتایا کہ ’اس دوران انویسٹی گیشن ونگ ان لوگوں سے تفتیش کر رہے ہیں جو وقوعہ کے وقت وہاں موجود تھے۔ جن میں مقتولہ کا لے پالک بیٹا فہد، رضیہ بی بی جو ان کی ملازمہ ہے، ڈرائیور روح اللہ اورملازم رمضان شامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو پولیس نے اپنی تحویل یا حراست میں نہیں لیا کیونکہ جب تک وہ ملزمان ثابت نہیں ہو جاتے انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
’جب وقوعہ ہوا اس وقت گھر کے اندر چھ لوگ موجود تھے جن میں خود فرح مظہر ان کے لے پالک بیٹے فہد، ان کی بہن، اور تین ملازم شامل تھے۔ اور بھی ملازمین تھے گھر میں لیکن جن سے تفتیش کی جا رہی ہے یہ وہ ہیں جو اس سارے وقوعے کے دوران موجود تھے۔ فرح مظہر کو ملازمہ رضیہ، ڈرائیور روح اللہ اور ملازم رمضان، حمید لطیف ہسپتال لے کر گئے اور ابتدائی معلومات جو انہوں نے فراہم کی وہ خود کشی کی تھی۔ بعد میں جب ہمارے افسران نے جائے وقوعہ اور دیگر حالات دیکھے تو انہیں شک ہوا کہ شاید یہ خود کشی نہیں تھی کیونکہ یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ کوئی اپنے پیٹ میں گولی مار کر خود کشی کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں معلوم ہوگا کہ پیٹ میں کتنی گولیاں لگیں۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کامران عادل کا کہنا تھا کہ ’میڈیا پر کچھ خبریں چلیں کہ فہد اپنی ملازمہ سے شادی کرنا چاہتا تھا جب کہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔ فہد ایک اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ رضیہ صرف ان کی ملازمہ ہے، وہ طلاق یافتہ اور ایک چھ سالہ بچی کی ماں بھی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فہد اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتا تھا اور والدہ راضی نہیں تھیں اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس نے گھر میں گولی چلنے کی آواز سنی تو وہ اپنی والدہ کے کمرے کی جانب بھاگا، جبکہ ملازمہ رضیہ بی بی نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں تھی جب فہد اس کے کمرے میں آیا اور اسے کہا کہ وہ والدہ کو اس کی مرضی کی شادی کے لیے راضی کرے اور اسی دوران اس نے گولی چلنے کی آواز سنی۔‘
اس کیس کی ایف آئی آرکے مبینہ قتل کی ایف آئی آر تھانہ مسلم ٹاؤن میں درج کر لی گئی۔ ایف آئی آر مرحومہ کے بیٹے فرید احمد کی مدعیت میں دفعہ 302، 311، 109 اور 201 کے تحت درج کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈپٹی انسپیکٹر جنرل سہیل چوہدری کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے مقتولہ کے بیٹے فہد اور دو ملازمین کو حراست میں لیا۔ ملازمین نے انکشاف کیا کہ فہد پسند کی شادی کرنا چاہتا تھا جبکہ ان کی والدہ رشتے پر راضی نہیں تھیں اور اسی تنازع پر انہوں نے اپنی والدہ کو گولی مار کر قتل کیا اور اسے خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے قتل کے بعد جائے وقوعہ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جبکہ پستول فرش کے نیچے چھپا دیا۔‘
ڈی آئی جی سہیل چہودری کا کہنا ہے کہ ابتدائی بیانات کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل حقیقت فرانزک اور پوسٹ مارٹم رپورٹس کے بعد سامنے آئے گی۔ ’گھروں میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں لیکن جب تک تحقیقات پوری نہیں ہوجاتیں ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ خاتون کی موت کی وجہ دراصل کیا بنی؟‘
قتل کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والی ایس پی اقبال ٹاؤن ڈاکٹر عمارہ شیرازی و دیگر افسران کے مطابق ملزم نے مبینہ طور پر قتل کرنے کے بعد بیڈ شیٹ تبدیل کرنے کے ساتھ دو پستول زمیں میں دبا دیے اور ایک پستول کچن میں چھپادیا۔ پولیس نے تینوں پستول برآمد کر لیے ہیں۔
یاد رہے 2006 میں سیٹھ عابد کے بیٹے کو پانچ افراد کے ہمراہ ستوکتلہ کے علاقے میں ایک سکیورٹی گارڈ نے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
سیٹھ عابد پاکستان کے امیر ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک تھے۔ گزشتہ برس کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد وہ کراچی میں 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔