سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بدھ کو ترکی پہنچ گئے ہیں جہاں ان کی ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات طے ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سعودی ولی عہد ترکی پہنچ گئے ہیں۔
تیل کی دولت سے مالامال ریاست کے رہنما عشائیے پر ترک صدر سے ملاقات کریں گے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مشرقی وسطیٰ کے دورے کے آخری حصے کے طور پر سعودی ولی عہد ترکی پہنچے ہیں جبکہ اس سے قبل وہ مصر اور اردن کا دورہ کر چکے ہیں۔
محمد بن سلمان کا یہ دورہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو بحال کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے جو 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی میں قتل کے بعد سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔
ترک صدر اردوغان نے رواں سال اپریل میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
محمد بن سلمان کی ترکی آمد سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا کہ ان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا مرکزی نکتہ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کو زیادہ بلندی تک لے جانا ہوگا۔
اے پی کے مطابق ترکی کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد سعودی عرب نے ترکی کے لیے برآمدات پر غیرسرکاری طور پر پابندی لگا دی تھی جس سے دنوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت میں تقریباً پانچ ارب ڈالر کی ڈرامائی کمی آئی تھی۔
سعودی عرب نے ترکی کے مقبول ڈراموں پر بھی پابندی لگا دی تھی۔
خطے کے دو بڑے ملکوں کی جانب باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب ترکی کو دو دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور خلیج کے امیر ملکوں کی جانب سے سرمایہ کاری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوریشا گروپ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق تحقیقی ٹیم کے سربراہ ایہام کامل نے کہا ہے کہ ’شہزادہ محمد بن سلمان کا اس ہفتے کے علاقائی دورے کا مقصد ریاض کے علاقائی کردار کو مضبوط بنانا اوراگلے ماہ امریکی صدر جوبائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے پہلے مصالحتی کوششوں کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔‘
کامل کے بقول: ’دو طرفہ تجارت بڑھنے کا امکان ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ترکی کے لیے سعودی سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا۔ فوجی اور دفاعی تعاون یا ہتھیاروں کی خریداری پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے کیوں کہ سعودی عرب اسلحہ فراہم کرنے والے ملکوں کے حوالے سے تنوع میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اردوغان کے فیصلے کی بڑی وجہ معیشت اور تجارت ہے۔
ملک میں عام انتخابات سے ایک سال پہلے ترکی میں عوام کا معیار زندگی زوال پذیر ہے۔ عام انتخابات اردوغان کے اتارچڑھاؤ کے شکار دو دہائیوں کے اقتدار کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔
دا واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ترک امور کے ماہر سونر کاگپتے کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ شائد تقریباً ایک دہائی میں کسی غیر ملکی رہنما کے انقرہ کے اہم ترین دوروں میں سے ایک ہے۔ اردوغان کی توجہ اپنے اوپر ہے۔ ان کی توجہ الیکشن جیتنے پر مرکوز ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنا غرور ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘