برطانیہ غلط بنیادوں پر لوگوں کو قید اور ڈی پورٹ کرنے لگا؛ ماہرین

قانونی ماہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ ہوم آفس انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہا ہے کیونکہ وہ درخواستوں کے باوجود تارکین وطن کو ان کی امیگریشن ہسٹری کی معلومات پر مبنی فائلز جاری کرنے میں ’حسب معمول ناکام‘ ہو رہا ہے۔

ایک خاتون ہوم آفس سے نکلتے ہوئے(فائل، روئٹرز)

برطانیہ کے وکلا اور انسانی حقوق کے لیے مہم چلانے والوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ امیگریشن حکام کا نشانہ بننے والے افراد غلط بنیادوں پر قید اور ڈی پورٹ کیے جا رہے ہیں کیونکہ حکومت انہیں ضروری کاغذات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جوکہ اس کا قانونی فرض ہے۔

اس حوالے سے کام کرنے والے قانونی ماہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ ہوم آفس انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہا ہے کیونکہ وہ درخواستوں کے باوجود تارکین وطن کو ان کی امیگریشن ہسٹری کی معلومات پر مبنی فائلز جاری کرنے میں ’حسب معمول ناکام‘ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف آنے والے فیصلے کو بدلنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔

ڈیٹا تحفظ کے بارے میں قانون کے تحت کوئی بھی شخص کسی سرکاری اور عوامی ادارے سے سبجیکٹ ایکسس ریکویسٹس (SAR) کے ذریعے اپنی ذاتی معلومات کا تقاضہ کر سکتا ہے جوکہ ایک ماہ کے اندر فراہم کیا جانا لازم ہے۔ اگر کوئی ادارہ اس کے لیے مزید وقت مانگتا ہے تو اسے درخواست گزار کو اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔

مگر امیگریشن سے تعلق رکھنے والی درخواستوں کے معاملے پر ہوم آفس کئی بار ڈیڈ لائنز کی پابندی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بلکہ کئی بار تو ہوم آفس کی جانب سے ان درخواستوں کا کوئی جواب تک نہیں دیا گیا جب تک کہ درخواست گزار کی طرف سے قانونی کارروائی کی دھمکی نہ دی گئی۔

ماہرین کے مطابق یہ ان لوگوں کے لیے ’انتہائی نقصان دہ‘ ہے جو اپنی قانونی حیثیت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر اگر ان کے پاس امیگریشن قوانین کے ماہرین کو ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔

ایسے ہی ایک معاملے میں برطانیہ کہ قومی ادارہ صحت سے تعلق رکھنے والے سابق میل نرس کو 2017 میں گھانا ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا حالانکہ وہ برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے اور کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ابھی تک ہوم آفس کے اس فیصلے کو چیلینج نہیں کر سکے کیونکہ انہیں اس سلسلے میں درکار ضروری کاغذات ابھی تک فراہم نہیں کیے گئے جن کی درخواست انہوں نے ہوم آفس سے فروری میں کی تھی۔

ڈین ابلاکوا اس وقت گھانا کے دارالحکومت اکرا میں عدم قومیت کا شکار ہیں اور ملازمت سے محروم ہیں۔ برطانوی حکومت نے انہیں 2017 میں واپس بھیج دیا تھا۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی اب مزید جینے کے لائق نہیں کیونکہ وہ ایک لمبے عرصے سے ’تھم سی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے وکیل ناگا کانڈیا کہتے ہیں وہ کیس میں کوئی بھی پیش رفت نہیں کر سکے کیونکہ انہیں اس سلسلے میں درکار ضروری کاغذات نہیں مل سکے جو انہوں نے ہوم آفس سے 8 فروری کو طلب کیے تھے۔

ہوم آفس کی جانب سے انہیں کئی بار کہا گیا ہے کہ وہ اس درخواست کو دوبارہ جمع کروایں۔ پہلی بار کہا گیا کہ درخواست میں ’الفاظ کی غلطی‘ تھی، ایک اور موقعے پر کہا گیا کہ درخواست کا نیلی سیاہی میں لکھا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح ایک بار کہا گیا کہ ان کے دستاویزات پر وکیل کا ریگولیشن آتھارٹی نمبر شامل کیا جائے۔ کانڈیا کے مطابق یہ نمبر آن لائن بھی آسانی سے تلاش کیا جا سکتا تھا۔

کانڈیا نے کہا :’بدقسمتی سے یہ بہت سے ایسے کیسوں میں سے ایک اور موقع ہے جب ہوم آفس دستاویزات مانگنے والے درخواست گزار کو مناسب جواب دینے میں ناکام رہا ہے۔ وہ شاید ہی کبھی 28 دن کی مقررہ مدت کے اندر جواب دیتے ہوں۔ ہمیں اکثر کہا جاتا ہے کہ ہم اس کے لیے غیر ضروری شواہد فراہم کریں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لوگ جو یہ کاغذات حاصل نہیں کر سکتے وہ اپنے مقدمات کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔‘

ابلاکوا، جو ایک دہائی تک برطانیہ میں ملازمت کرتے رہے اور ٹیکس بھی ادا کرتے رہے، نے کہا: ’مجھے لگتا ہے ہوم آفس کی جانب سے ایسا جان بوجھ کے کیا جا رہا ہے تاکہ میں ہمت ہار جاوں۔ ان کی جانب سے ایک کے بعد ایک بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ نہ سمجھ آنے والی بات ہے کیونکہ وہ ایک ہی بات کو گھمائے جا رہے ہیں۔‘

’میں یہاں ایک عام انسان جیسا محسوس کرنے کی صلاحیت بھی کھو چکا ہوں۔ لوگ اس کو بھول کر آگے بڑھ چکے ہیں لیکن میں دو سال سے اسی صورتحال میں گھرا ہوا ہوں۔ میری دماغی حالت بہت بری ہے۔ میں رات میں سو بھی نہیں سکتا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں کسی قید خانے میں ہوں۔ میں زندگی میں کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن میری زندگی تھم سی گئی ہے۔ مجھے ہوم آفس پر بھروسہ نہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔‘

لا فرم ڈنکن لیوس میں امیگریشن اور پبلک لا کے ڈائریکٹر توفیق حسین ہوم آفس سے دستاویزات کی درخواستوں پر جواب حاصل کرنے کو ایک ’مشکل لڑائی‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسی صورتحال ان لوگوں کے لیے بہت مشکل ہے جو امیگریشن حکام کی حراست میں ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اگر کوئی وکیل ہوم آفس کو قانونی کارروائی کی دھمکی دیتا ہے تو تب ہی وہ ان سے کوئی کام کروا سکتا ہے۔ متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کے پاس ان وکلا تک رسائی کی صلاحیت نہیں ہے جو ایسا کر سکتے ہیں۔ یہ بہت مہنگا اور وقت طلب ہے۔‘

’اس سے تاخیر کا خطرہ ہے اور یہ لوگوں کے لیے انصاف کی فراہمی کے انکار جیسا ہے جو ناقابل قبول ہے۔ عدالت کو چاہیے کے اس حوالے سے واضح ہدایات جاری کرے کیونکہ ہوم آفس اپنے ہی قوانین پر عمل کرنے  سے قاصر ہے۔ وہ اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘

جوائینٹ کونسل فار ویلفیر آف امیگرینٹس (جی سی ڈبلیو آئی) کی لیگل ڈائریکٹر نکولا برجیس کہتی ہیں کہ ہوم آفس سے معلومات ملنے میں تاخیر ہونا بہت پریشان کن ہے، خاص طور پر ونڈرش سکینڈل کے بعد جس میں یہ سامنے آیا تھا کہ ہزاروں لوگوں کو غلط طور پر غیر قانونی تارکین وطن کے جیسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے پاس اپنی امیگریشن ہسٹری کو ثابت کرنے کے کاغذات نہیں تھے۔

نکولا نے کہا: ’امیگریشن کے اصولوں کے مطابق ہوم آفس سے امیگریشن کے پورے کاغذات حاصل کرنا کسی کلائنٹ کے کیس کو جاری رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں حکومت فریق ہوتی ہے تو طاقت کا توازن اسی کے حق میں ہوتاہے۔ ریاست کے پاس ہر چیز کی معلومات موجود ہوتی ہیں، لیکن درخواست گزاروں کے پاس یہ سہولت نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ونڈرش اس صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے کہ درخواست گزاروں اور وکلا کے پاس بھی اس تمام ریکارڈ تک رسائی ہونی چاہیے۔ یہ ڈی پورٹ ہونے کے خدشے کا شکار کسی بھی شخص کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔

نکولا کے مطابق انفارمیشن کمیشنز آفس (آئی سی او)، یو کے ڈیٹا پروٹیکشن کا نگران ادارہ جو SAR کی درخواستوں کا جواب دینے میں حکومتی ناکامی کی شکایات کو دیکھتا  ہے، وہ بھی وکلا کی جانب سے کی جانے والی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

جی سی ڈبلیو آئی نے آئی سی او کو 2017 میں اس معاملے پر خط بھی لکھا جس کا ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

 جب دی انڈپینڈنٹ نے آئی سی او سے اس بارے میں سوال پوچھا تو ترجمان نے کہا کہ وہ اس حوالے سے ہوم آفس کے ساتھ رابطہ  کر چکے ہیں اور  ان کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’اس وقت اس بارے میں کسی انضباطی کارروائی کی ضرورت نہیں۔‘

ہوم آفس کے ترجمان نے کہا: ’انفرادی سطح پر کوئی بھی ہوم آفس کے پاس موجود اپنی پوری فائل کی کاپی حاصل کرنے کے لیے SAR درخواست جمع کروا سکتا ہے۔ ہم ہر درخواست گزار کی شناخت ہونے کے بعد ایک ماہ میں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کچھ مقدمات میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس لیے سب کو بروقت جواب نہیں دیا جا سکتا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ