آئی ایم ایف سے اب ایک کی بجائے دو ارب ڈالر ملیں گے: وزیر اعظم

شہباز شریف نے کہا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے صبح انہیں میسج بھیجا جس میں لکھا تھا کہ اب آئی ایم ایف سے ایک نہیں دو ارب ڈالر ملیں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے اب ایک ارب ڈالر کی بجائے دو ارب ڈالر ملیں گے۔

یہ بات وزیر اعظم نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹرن اراؤنڈ پاکستان کانفرنس سے خطاب میں کہی۔ شہباز شریف نے کہا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے صبح انہیں میسج بھیجا جس میں لکھا تھا کہ اب آئی ایم ایف سے ایک نہیں دو ارب ڈالر ملیں گے۔

’ہماری منزل خود انحصاری ہے۔‘ اس بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ریکو ڈک میں اربوں ڈالر کا خزانہ دفن ہے مگر ایک روپیہ نہیں کمایا گیا اور اب پاکستان قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’بنگلادیش میں چھ ارب ڈالر سے بہت بڑا انفرااسٹرکچربنایا گیا، پاکستان میں بھی کسی چیزکی کمی نہیں، ہرشعبے کے ایکسپرٹ ہیں،14 ماہ میں معاشی استحکام لائیں گے لیکن یہ سیاسی استحکام سے جڑا ہے۔‘

ادھر پاکستان کو آئی ایم ایف سے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کے لیے معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی دستاویز کا مسودہ موصول ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ اعلان ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کیا۔

معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی دستاویز کا مسودہ عملے کی سطح پر معاہدہ طے کرنے کی راہ ہموار کرنے کی بنیادی شرط ہے۔

دیوالیہ پن کا خطرہ ٹل گیا، مشکل فیصلوں سے یاد رکھا جاؤں گا: مفتاح

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قوم کو ’دیوالیہ پن‘ کے خطرے سے باہر نکلنے کی خوشخبری دیتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ میں انہیں ’مشکل فیصلے‘ کرنے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔

منگل کو اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں ٹرن اراؤنڈ پاکستان کانفرنس سے خطاب میں مفتاح اسماعیل نے کہا: ’تاریخ مجھے اگر یاد رکھے تو کم از کم یہ یاد کرنا چاہیے کہ سب سے پہلے پاکستان کو جو خطرہ تھا، وہ میں نے دیکھا اور اس کے بارے میں جو بھی اقدامات تھے وہ کیے۔‘

’میں کبھی بھی ڈرا نہیں، جو بھی مشکل فیصلے کرنے تھے، وہ کیے ہیں۔ اللہ کی مہربانی سے وزیراعظم کی قیادت میں اور اس اتحادی حکومت کی قیادت نے مجھے بھرپور سپورٹ کیا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’یہ مشکل فیصلے کیوں لینے پڑے؟‘ اس کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا: ’جب ہم آئے تو پاکستان کو چار ریکارڈ بجٹ خساروں کا سامنا تھا۔ پچھلے چار سالوں میں پاکستان نے چار ریکارڈ بجٹ خسارے کیے تھے۔ اس سال بھی پانچ ہزار ارب روپے خسارہ تھا۔ پچھلے چار سالوں میں قوم کا قرضہ 20 ہزار ارب روپے سے بڑھا ہے۔‘

’پچھلے 71 سالوں میں 25 ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا اور پچھلے پونے چار سالوں میں 20 ہزار ارب روپے قرض لیا گیا، جو کہ اس قرضے کا 80 فیصد ہے جو 71 سالوں میں لیا گیا۔‘

مزید پڑھیے: معاشی بد انتظامی ٹھیک کرنا اولین ترجیح ہے: مفتاح اسماعیل

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’چار بڑے خساروں کے بعد ملک پانچویں خسارے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ دنیا بھی اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ آئی ایم ایف بھی تیار نہیں تھا اور کوئی اور ادارہ بھی تیار نہیں تھا کہ آپ پانچ پانچ ہزار ارب روپے کا خسارہ کر رہے ہیں اور کیا ٹیکس ہے آپ کا؟‘

انہوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان کا ٹیکس جی ڈی پی آٹھ اعشاریہ سات فیصد ہے، جو دنیا میں کم ترین ملکوں میں شامل ہے۔ ’جس سال مسلم لیگ ن حکومت چھوڑ کر گئی تھی 2018 میں، اس سال پاکستا کا ٹیکس جی ڈی پی گیارہ اعشاریہ ایک فیصد تھا۔‘

وزیر خزانہ نے پی ٹی آئی کی سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’آپ خودداری کی بات نہ کریں اگر آپ ٹیکس جمع نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کو ہر جگہ دوسرے ممالک میں جاکر پیکجز لینے ہیں، دوسرے ممالک سے سود لینا ہے تو پھر خودداری کی بات نہ کریں، دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ اپنی معیشت کے حجم کا نو فیصد بھی ٹیکس نہیں دے رہے، آٹھ اعشاریہ چھ فیصد ٹیکس دے رہے ہیں تو پھر آپ خودداری کی بات نہ کریں۔‘

بقول مفتاح اسماعیل: ’یہ بھی ہمیں ٹھیک کرنا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس ملک کے اندر ہمیں پیڑول اور ڈیزل کی سبسڈی میں 120 ارب روپے ماہانہ نقصان کا سامنا تھا۔ حکومت چلانے کا خرچہ 40 ارب روپے ماہانہ ہے اور صرف پیٹرول اور ڈیزل کی سبسڈی پر ہم 120 ارب روپے دے رہے تھے۔ وہ ملک کو دیوالیہ کردیتی، لہذا اس کا تدارک کرنا ضروری تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف سفارشات پر پیٹرول مہنگا کرنا ہو گا: مفتاح اسماعیل

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پیٹرول اور ڈیزل مہنگا کیا۔ مجھے پاکستانی قوم پر فخر ہے کہ یہ قوم سمجھی ہے کہ حکومت کو دشواری تھی، ملک خدانخواستہ دیوالیہ پن کی نہج پر تھا اسی لیے یہ کرنا پڑا۔ جب غریب لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا ہے تو پھر اہم امیر لوگوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لے کر آئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سپر ٹیکس لگایا ہے اور اب ہم پورے پاکستان کے دکانداروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں رئیل سٹیٹ، کار شورومز، فرنیچر ہر کسی کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں گے۔‘

وزیر خزانہ کا کہنا تھا: ’اگر پاکستان کو خودکفیل بنانا ہے تو پاکستانیوں کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل چکا ہے، لیکن حالات پھر بھی مشکل ہیں۔ ہم شاہ خرچیاں نہیں کرسکتے، ہمیں ڈسپلن میں رہنا ہوگا لیکن ہم مشکل سے نکل گئے ہیں۔‘

آخر میں وزیر خزانہ نے کہا: ’آپ دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان بہتری کی طرف جائے گا۔ مشکل فیصلے کیے ہیں اور آئندہ بھی کرنے پڑے تو کریں گے لیکن پاکستان کی سلامتی کو اپنی سیاست پر ترجیح دیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت