پنجاب کے جنوبی شہر لودھراں میں مقامی دربار پر عرس کے موقعے پر ہر سال پہلے ایک ہی شخص کو الٹا لٹکا کر دھمال ڈالی جاتی تھی مگر اب ان کا بیٹا یہ رسم نبھارہا ہے۔
نوجوان کوالٹا لٹکا کر دھمال کی ویڈیو جب وائرل ہوئی تو پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ پولیس کے مطابق مقامی دربار پر گجرات سے تعلق رکھنے والے دو افراد خود کو ’پیر کامل‘ ظاہر کرتے ہیں اور دربار پر عرس کے دوران الٹا لٹکا کر دھمال ڈلواتے ہیں نیز انہوں نے ’یہ روحانی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔‘
پولیس نے اپنے ہی ایک اے ایس آئی اظہر حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جن کو وٹس ایپ پر ویڈیو موصول ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ یہ رسم جون کے دوسرے ہفتے منعقد ہوتی ہے۔ اس میں درخت کے ساتھ رسی سے خود کوباندھ کرالٹا لٹکنے والے محمد ارشد ولد محمد نواز سمیت تین افراد کو گرفتار کر کے عدالت پیش کیا گیا عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
جرات اور دیگر شہروں میں بھی اس رسم کا پرچار کیا جاتا ہے۔ اس دھمال کے دوران اعتقاد کرنے والوں کو منتیں پوری ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق ’تعلیمات میں اس طرح کے فعل کی ممانعت ہے۔ علما کرام کو اس طرح کی شعبدے بازیاں کرنے والے نام نہاد پیروں کو بے نقاب کرنا چاہیے اور عوام کو تربیت دینی چاہیے کہ وہ ڈھونگی پیروں فقیروں کا روپ دھارنے والوں کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ حکومت اور درباروں کے گدی نشینوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جعلی پیروں کا محاسبہ کریں جو اسلام کا نام بدنام کرتے ہیں۔‘
لودھراں میں الٹا لٹکانے کی رسم:
تھانہ قریشی والا کے ایس ایچ او عامر ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مقامی دربار ہے جہاں کاشف عباس اور قیصر عباس ہر سال عرس پر آتے ہیں ان کا تعلق گجرات سے ہے وہ یہاں اپنے پیروکاروں کو جمع کر کے قوالی کی محفل کراتے ہیں۔‘
عامر ندیم کے بقول ’اس قوالی کی محفل میں پہلے نواز نامی اپنے مریدِ خاص کو الٹا لٹکاتے تھے اور اب ان کا بیٹا محمد ارشد ہے جسے الٹا لٹکایا گیا ہے۔ اس دوران قوالی پر دھمال ڈالی جاتی ہے اور علاقے کے مرد وخواتین سب جلال میں دکھائی دیتے ہیں۔‘ دھمال کے دوران وہ ان کو مختلف وظائف بھی کراتے ہیں اور منتیں بھی چڑھائی جاتی ہیں۔
’ان نام نہاد پیروں کی جانب سے لوگوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اس رسم کے دوران وہ جو بھی منت مانگیں گے پوری ہوجائے گی لہذا ان کے پیروکاروں کی تعداد ہرسال بڑھتی جارہی ہے۔‘
ایس ایچ او نے بتایاکہ قیصر اور کاشف دونوں گجرات سمیت مختلف دیہی علاقوں میں جاتے ہیں اور اسی طرح قوالی کی محفل میں مخصوص پیروکار کو لٹکا کر دھمال ڈلواتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس نے ویڈیو موصول ہونے پر کارروائی کا فیصلہ کیا تو اہل علاقہ نے درخواست دینے سے بھی انکار کردیا کیونکہ وہ اس کو قابل اعتراض عمل نہیں سمجھتے۔ پولیس کے مطابق ’جو نام نہاد پیر تھے کاشف اور قیصر وہ یہاں موجود نہیں تھے اس لیے ان کے خلاف مقدمہ درج ہے گرفتار نہیں ہوئے۔‘
’یہ رسم کوئی صدیوں پرانی نہیں ہے بلکہ کچھ سال پہلے شروع کی گئی جو ان دو برائے نام پیروں کے پیروکاروں میں ہی مقبول ہے الٹا لٹکانا غیر انسانی اور قابل سزا جرم ہے اس لیے کارروائی کی گئی ہے مگر لوگ اس کو سنجیدہ نہیں لیتے۔‘
رسم میں موجود غلام عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کاشف عباس اور قیصر عباس ہمارے روحانی پیر ہیں، یہاں ہر سال آتے ہیں۔ کسی کو زبردستی نہیں لایا جاتا بلکہ لوگ منتیں ماننے اپنی مرضی سے آتے ہیں قوالی میں اللہ کا ذکر سنتے ہیں اور وجد میں آکر دھمال ڈالتے ہیں جس سے انہیں روحانی سکون ملتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک ارشد کے الٹا لٹکنے کی بات ہے تو وہ بھی روحانیت کا ایک طریقہ ہے وہ بھی خوشی سے لٹک کر فیض حاصل کرنے اور لوگوں کو پر جوش کرنے کے لیے کردار ادا کرتے ہیں یہ سارا معاملہ اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘
غیر شرعی رسوم پر تحفظات:
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام کسی بھی صورت کسی کو الٹا لٹکانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس طرح کی رسمیں اور پیروں کا روپ دھار کر عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ یہ نہ صرف اسلام کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس پر تمام درباروں کے گدی نشینوں، خانقاہوں کے سربراہوں اور انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جیسے لودھراں پولیس نے کارروائی کر کے حوصلہ شکنی کی ہے تاکہ لوگوں کو اندازہ ہوسکے کہ ایسی شعبدہ بازی مذہب میں شامل نہیں ہے بلکہ یہ جرم ہے۔
قبلہ ایاز کے خیال میں علما کرام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور عوام میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ وہ مذہب کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے والوں کو پہچانیں اور ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔
’اسلام میں ایسی حرکتوں کی گنجائش نہیں ہے نہ ہی درباروں کے اولیا نے ایسی کوئی تعلیم دی ہے کہ ان کے درباروں پر عرس کے نام پر تماشہ کیا جائے۔ اس کا ایک طے شدہ اسلامی طریقہ ہے جس میں لوگ روحانی تعلیم کے لیے علما سے رجوع کر سکتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔‘