خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان مابین وفاق کی جانب سے قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈ میں کٹوتی، صحت کارڈ پروگرام کو صوبے میں منتقل کرنے سمیت مختلف دیگر مسائل پر چپقلش شدت اختیار کر گئی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے عالمی مالیاتی بینک (آئی ایم ایف) کے پاکستان کے ساتھ معاہدے پر صوبے کے دستخط ان مسائل کو حل کرنے سے مشروط کر دیے ہیں۔
اسی مد میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے ایک خط بھی وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھیجا گیا ہے جس میں ان تمام مسائل پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔
خط (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) کا بنیادی نکتہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور شرائط میں صوبے کے حوالے سے جو شرط رکھی ہے اس پر خیبر پختونخوا کی جانب سے دستخط سے پہلے وفاق صوبے کے کچھ مسائل حل کرے۔
وفاق نے خیبر پختونخوا حکومت کو بتایا کہ آئی ایم آیف کی شرط کے صوبے کا بجٹ 800 ارب سرپلس کرنا ہوگا، پر دستخط کرے۔ اسی حوالے سے مفتاح اسماعیل کی جانب سے خیبر پختونخوا کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں پہلی بات ضم شدہ اضلاع کے صحت کارڈ پروگرام کے حوالے سے ہے۔ سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کی جانب سے ایک خط صوبائی صحت سہولت پروگرام کے نام لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کو ملنے والی صحت کوریج کا دورانیہ 30 جون کو ختم ہوگیا ہے۔
وزیر خزانہ و صحت اس سے پہلے کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وفاق نے ضم شدہ اضلاع کو صحت کارڈ پروگرام کی مد میں ملنے والی رقم بند کردی ہے اور اب ضم شدہ اضلاع کا مفت علاج صحت کارڈ پروگرام میں نہیں ہو سکتا۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ضم شدہ اضلاع کو صحت کارڈ پروگرام کی مد میں ملنے والی رقم صوبے کو ملے اور یہ فنڈ تب تک جاری رہیں جب تک اگلا نیشنل فنانس کمیشن کا اجلاس اور فیصلہ نہ ہوجائے۔‘
وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ میں خیبر پختونخوا حکوت کی جانب سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا تھا پاکستان مسلم لیگ کی اتحادی حکومت نے ضم شدہ اضلاع کے کی رواں سال کی بجٹ میں کٹوتی کی ہے اور یہ بجٹ 77 ارب سے کم ہو کر اب 60ارب کردیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’ضم ہونے کے بعد اب یہ اضلاع خیبر پختونخوا کا حصہ ہے لیکن بد قسمتی سے این ایف سی ایوارڈ میں قوانین کے مطابق ضم شدہ اضلاع کے لیے ملنے والا فنڈ نہیں دیا جارہا ہے اور نہ اس وعدے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ڈویزبل پول(مختلف صوبوں سے وفاق کو ٹیکسز کی مد میں جمع ہونے والا رقم) کا تین فیصد حصہ ملے گا۔‘
خیبر پختونخوا بجلی منافع کا مسئلہ
وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین بجلی کی مد میں وفاق سے ملنے والے منافع کی ادائیگی کئی برسوں سے نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ حل ہوا ہے۔
صوبے میں پاکستان تحریک انصاف سمیت ماضی کی حکومتوں نے اس مسئلے پر وفاق کے ساتھ بات کی ہے لیکن یہ منافع پورا نہیں مل رہا ہے۔ وفاق کی جانب سے وقتا فوقتا صوبے کو بجلی کی مد میں منافع ملتا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ہی کی حکومت میں 2016 میں یہ فیصلہ ہوا تھا صوبے کو ہر ماہ تین ارب روپے ملیں گے اور پی ٹی آئی دور میں یہ مل رہے تھے لیکن ابھی دوبارہ تعطل کا شکار ہیں۔
خط کے مطابق اگر یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہوا تو اس سے صوبے کو مزید 60 ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خزانہ نے خط میں نیشنل فنانس کمیشن پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ جھگڑا نے لکھا ہے کہ موجود ہ این ایف سی ایوارڈ 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر دیا جا رہا ہے لیکن اب چوں کہ آبادی بڑھی ہے، تو این ایف سی پر نظر ثانی کر کے اس کو 2017کے مردم شماری کے مطابق کیا جائے۔
خط کے آخر میں جھگڑا نے لکھا ہے کہ ’آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط پر صوبہ تب دستخط کرے گا جب ان کو رواں مالی سال کا پورا بجٹ جو 1332 ارب ہے، مل جائے۔
’صوبائی حکومت قومی فریضے کو مکمل کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اس مد میں میری آپ( مفتاح اسماعیل) سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور یہ خط بھی لکھا گیا تھا لیکن تین دن گزرنے کے باوجود بھی اس کوئی جواب صوبے کو موصول نہ ہو سکا۔‘
تیمور جھگڑا کیا کہتے ہیں؟
صوبائی وزیر خزانہ و صحت تیمور سلیم جھگرا نے انڈپینڈنٹ ارو کو بتایا کہ ضم شدہ اضلاع کے 12 لاکھ خاندانوں کو وفاق کی جانب سے صحت کارڈ کوریج سے محروم کرنا غیر قانونی عمل ہے۔
’اس مجرمانہ اقدام کی ذمہ داری پاکستان مسلم لیگ ن، جمیعت علما اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور قبائلی اضلاع کے اراکین اسبملی جس میں محسن داوڑ بھی شامل ہیں پر عائد ہوتی ہے۔‘
جھگڑا نے بتایا کہ ’شہباز شریف ایک طرف ضم شدہ اضلاع میں میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کے اعلانات کر رہے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ کپڑے بیچیں گے تاکہ خیبر پختونخوا کے عوام کو سستا آٹا مل سکے لیکن حقیقت میں وہ ضم شدہ اضلاع سے ان کے صحت کے حقوق چھین رہے ہیں۔‘
سٹیٹ لائف کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے لیے صحت کارڈ کی کوریج تین سال کے لیے تھی اور اب سابق وزیر اعظم (عمران خان) کی ایک سمری کے تحت یہ کوریج ختم کردی گئی ہے اور اس کو صوبے کو متنقل کردیا گیا ہے۔
تاہم جھگڑا اس حوالے سے کہتے ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت ایک سمری کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ جو سمری تھی وہ عمران خان کی جانب سے ایسی کی گئی تھی کہ یہ ضم شدہ اضلاع کا پروگرام صوبے کو متنقل ہوگا لیکن اس کا فنڈ بند نہیں کیا جائے گا۔
جھگڑا نے بتایا کہ ’سمری میں یہ منظوری دی گئی تھی کہ ضم شدہ اضلاع صحت کارڈ پروگرام کو صوبے میں متنقل کیا جائے لیکن اس کی پی سی ون ریوازئز کی جائے گی اور اس کی منظوری سنٹرل ڈولمپنٹ ورکنگ پارٹی( سی ڈی ڈبلیو پی) دے گی اور اس میں صوبے کی جانب سے پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا نمائدہ شرکت کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
سی ڈی ڈی ڈبلیو پی وہ باڈی ہے جس میں وفاق کی سطح پر مختلف ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ہوتی ہے۔ جھگڑا نے بتایا کہ اسلام آباد، پنجاب ، گلگت اور کشمیر کے لوگوں کے لیے صحت کارڈ پروگرام کا فنڈ جاری کیا گیا لیکن ضم شدہ اضلاع کیے لیے نہیں کیا گیا۔
جھگڑا سے جب پوچھا گیا کہ اگر وفاق صحت کارڈ پروگرام کے لیے پیسے نہیں دیں گے تو کیا صوبہ اس کو فنڈ کریں گے، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات میں دیکھا جائے گا لیکن ابھی وفاق کو اس عمل پر معافی مانگنے چاہیے اور اپنا فیصلہ واپس لینا چاہیے۔
ضم شدہ اضلاع کے عوام کیا کہتے ہیں؟
محمد نبی کا تعلق ضم شدہ ضلع کرم سے ہیں اور صحت کارڈ پروگرام سے ضم شدہ اضلاع کے نکالنے پر پریشان ہے۔ محمد نبی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضم شدہ اضلاع سے لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے تھے جس میں زیادہ تر فائدہ ان لوگوں کو پہنچتا تھا جو ایک معمولی سرجری کرانے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ صحت کارڈ پر وفاق اور صوبائی حکومت نے سیاست شروع کی ہے اور ضم شدہ اضلاع کو ایک دوسرے کی کورٹ میں بال کی طرح پھینک رہے ہے۔
محمد نبی نے بتایا کہ ’پاکستانی حکومت نے ہمارے اضلاع کو ضم کیا ہے تو ابھی ہمیں کوئی تو قبول کرے۔ وفاق کہتا ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے اور صوبہ کہتا ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہمارے تیسرے درجے کے شہری سمجھ رہے تھےتو خدارا کوئی تو ہمیں قبول کرے تاکہ ہمارا مسئلہ حل ہوجائے۔‘
اس سارے مسئلے پر انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے رابطے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ ان کو وٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا گیا جسے پڑھنے کے باوجود اور یادہانی کے 24 گھنٹے گزرجانے کے باوجود ان کی طرف سے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی موقف انڈپینڈنٹ اردو کو نہیں فراہم کیا گیا۔