صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سالوں سے لاپتہ افراد جولائی کے شروع سے گھروں کو لوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔
اب تک باجوڑ، مہمند اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 12 سے زائد افراد اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ جو پانچ سے 11 سال کے عرصے تک لاپتہ رہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق رہا ہونے والوں میں شمالی وزیرستان کے ظہورالدین، باجوڑ کے اسلام خان اور قاری مسیح اللہ، مہمند کے طارق خان، قندھاری ڈاگ مہمند کے وحید اللہ، تحصیل صافی ضلع مہمند کے عبدالقیوم، تحصیل حلیم زئی ضلع مہمند کے طیب خان اور چند دیگر شامل ہیں۔
سماجی کارکنان کے مطابق، رہائیوں کا یہ سلسلہ 2018 سے جاری ہے جس کے نتیجے میں اب تک 200 سے زائد افراد رہا ہوچکے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے رہائیوں کا یہ سلسلہ بڑھ چکا ہے، جس کے بارے خیال کیا جارہا ہے کہ یہ طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ وقتاً فوقتاً اٹھایا جا چکا ہے اور اس ضمن میں 2011 میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر لاپتہ افراد کے بارے میں ایک کمیشن بنایا گیا جسے ملک میں لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
کمیشن کو ملک بھر سے تقریباً 8279 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 6047 کیسز کو نمٹایا گیا۔ یہ لوگ یا تو زندہ نہیں ہیں یا اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں، جیل میں ہیں یا پھر انٹرنمنٹ مراکز میں قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں وہ کیسز بھی شامل ہیں، جن کو غلط نام اور پتے کی بنیاد پر خارج کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پرانٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) اور اقوام متحدہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
قبائلی اضلاع کے حالیہ رہا ہونے والے افراد سے متعلق مقامی میڈیا کے مطابق تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہ کس کی قید میں تھے۔
رہا ہونے والے افراد کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے متعلقہ پولیس افسران سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن رپورٹ کے شائع ہونے تک بارہا رابطوں کے باوجود ان سے کوئی بات نہ ہوسکی۔
خیبر پختونخوا میں گمشدہ افراد کے ناموں کی فہرست رکھنے والے سیاسی کارکن اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رکن عالم زیب محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں گمشدہ افراد کی تعداد 4000 ہے، جب کہ 2018 سے مارچ 2022 تک رہا ہونے والے افراد کی تعداد 200 تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب اسی موضوع پر پی ٹی ایم کے رکن وسیاسی کارکن اولس یار سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس میں ظاہری اعداد وشمار کے علاوہ متعدد ایسے کیسز ہیں جن کو گمشدہ افراد کے لواحقین خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں کرتے۔
’پشاور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس مسئلے پر کئی فیصلے بہت واضح ہیں لیکن ایکشن ان ایڈ آف سول پاور 2019 کے قانون کے سامنے قانونی ادارے اور سیاسی قائدین بے بس ہیں۔‘
انہوں نے کہا، ’خیبر پختونخوا میں لکی، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، سوات اور مختلف اضلاع میں انٹرنمنٹ مراکز میں گمشدہ افراد کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے۔‘
ضلع مہمند میں وقتاً فوقتاً لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والے سماجی کارکن تفسیر مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صرف مہمند میں تقریباً 350 افراد لاپتہ ہیں۔
’یہ صرف رپورٹ شدہ اعداد وشمار ہیں۔ کئی لوگ خوف کی وجہ سے لاپتہ رشتہ داروں کا ذکر نہیں کرتے اور خاموش رہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
31 مئی 2018 کو قبائلی علاقہ جات کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن کا قانون ختم ہوگیا۔ لیکن اس کے اگلے سال پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے گورنر شاہ فرمان نے ’کے پی ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس 2019‘ قانون کی منظوری دی، جس کے تحت فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چند مخصوص افسران کو یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ صوبے کے مختلف مقامات پر حراستی مراکز قائم کرسکیں اور کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرسکیں۔