دو اہم کابینہ اراکین کے اچانک استعفوں کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت ڈانواں ڈول ہے اور بدھ کو انہیں دو اجلاسوں میں کڑے سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر خزانہ رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے منگل کو ایک دوسرے کے چند منٹوں کے اندر اندر استعفوں کا اعلان کیا اور بورس جانسن کی انتظامیہ چلانے کی صلاحیت پر سوال اٹھایا۔
دونوں سابق وزرا ماضی میں جانسن کی حمایت میں بیان دے چکے ہیں مگر اب اپنے استعفوں میں انہوں نے لکھا کہ وہ یہ مزید برداشت نہیں کر سکتے۔
دونوں نے کہا کہ وہ بورس جانسن کی سیکنڈلز سے بھری انتظامیہ کا مزید حصہ نہیں رہ سکتے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، کنزرویٹو پارٹی کے رکن کرس سکڈمور نے برطانوی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا خط جمع کرادیا۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے حکومتی استعفوں کے باوجود مستعفی ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اندرونی مسائل اور یوکرین جنگ کی روشنی میں ابھی استعفیٰ دینا ’ذمہ دارانہ‘ عمل نہیں ہوگا۔
رشی سونک، جو رپورٹس کے مطابق اخراجات پر پہلے بھی وزیراعظم سے نجی طور پر ٹکرا چکے ہیں، نے لکھا کہ ان کے لیے ایسے وقت میں مستعفی ہونے کا فیصلہ لینا آسان نہیں تھا جب دنیا کرونا وبا کے معاشی اثرات، یوکرین میں جنگ اور دیگر سنگین مسئلوں سے نمٹ رہی ہے، مگر انہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ فیصلہ نہیں کیا۔
انہوں نے لکھا: ’عوام بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ حکومت درست طریقے سے، قابلیت اور سنجیدگی سے چلائے گی۔ میں جانتا ہوں کہ یہ میری آخری وزارت ہوگی، مگر میرا ماننا ہے کہ یہ معیارات اہم ہیں اور اسی لیے میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘
سابق وزیر صحت ساجد جاوید نے کہا کہ عوام اور دیگر قانون سازوں نے قومی مفاد میں جانسن کی حکومت سنبھالنے کی صلاحیت پر اعتماد کھو چکی ہے۔
انہوں نے لکھا: ’میں بھاری دل سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر واضح ہوگیا ہے کہ آپ کی سربراہی میں یہ صورت حال بدلنے والی نہیں، اور اس لیے آپ میرا اعتماد بھی کھو چکے ہیں۔‘
اے ایف پی کے مطابق دونوں سابق وزرا اب کنزرویٹیو پارٹی کے پچھلے بینچوں پر بیٹھیں گے۔
وزیراعظم بورس جانسن آج برطانوی وقت صبح 11 بجے (پاکستانی وقت شام چار بجے) پارلیمان میں اپنے ہفتہ وار وزیراعظم سے سوالات کے سیشن میں پیش ہوں گے، جس میں گہما گہمی متوقع ہے۔
جانسن کو اس کے بعد پارلیمان کی طاقتور کمیٹیوں کے سامنے بھی پیش ہونا ہے جو کئی گھنٹوں تک چل سکتی ہیں اور جن میں پارٹی میں ان کے سخت ناقدین شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سونک اور جاوید کے استعفوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا جب کچھ دیر پہلے ہی وزیراعظم بورس جانسن نے ایک ایسے پارٹی رکن کی تقرری پر معذرت کی جنہوں نے دھت ہوکر دو افراد کو نازیبا انداز میں ہاتھ لگانے کے الزامات کے بعد گذشتہ ہفتے استعفیٰ دیا تھا۔ چیف وہپ کرس پنچر کے استعفے سے قبل انتظامیہ نے کئی وضاحتیں پیش کی تھیں۔
ڈاؤننگ سٹریٹ نے پہلے اس بات سے انکار کیا تھا کہ فروری میں پنچر کی تقرری سے قبل جانسن ان کے خلاف الزامات سے آگاہ تھے۔ تاہم منگل کو اعلیٰ سرکاری افسر کے انکشاف کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ جانسن کو 2019 میں، جب وہ وزیرخارجہ تھے، پنچر سے جڑی ایک شکایت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
کنزرویٹیو پارٹی کے رکن پارلیمان اینڈریو بریجن، جو جانسن کے سخت ناقدین میں سے ہیں، نے سکائی نیوز کا بتایا کہ پنچر والا معاملہ سونک اور جاوید کے لیے سونے پر سہاگا ہوگیا۔
انہوں نے کہا: ’جانسن کے جانے کا وقت آگیا ہے۔ وہ چاہیں تو وہ اسے کچھ گھنٹوں کے لیے مزید گھسیٹ سکتے ہیں۔ مگر میں اور دیگر پارٹی اراکین نے اب تہیہ کر لیا ہے کہ وہ موسم گرما کی بریک، جو 22 جولائی کو شروع ہوگی، تک چلے جائیں۔ جتنی جلدی، اتنا بہتر۔‘
دو وزرا کے استعفے ایک ایسے وقت میں بھی آئے ہیں جب ایک ماہ قبل ہی جانسن اپنی پارٹی میں تحریک عدم اعتماد میں بچنے میں کامیاب ہوئے۔
دیگر کابینہ اراکین جیسے وزیر خارجہ لز ٹرس اور وزیر دفاع بین ویلیس، جو جانسن کے بعد ممکنہ پارٹی سربراہ ہو سکتے ہیں، اب بھی ان کے ساتھ ہیں۔
کابینہ میں جانسن کے ایک اور حامی جیکب ریس موگ نے استعفوں کو ’چھوٹی مقامی مشکلات‘ قرار دیا۔
انہوں نے سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے ماضی کنزریٹیو رہنماؤں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’وزرا کا جانا عام سی بات ہے۔‘
شہ سرخیاں کیا رہیں؟
اہم وزرا کے استعفے برطانوی اخباروں کی سرخیوں میں رہے۔
دا ٹائمز نے سرخی ’جانسن دھانے پر‘ کے ساتھ چھپی خبر میں لکھا کہ اس ’بظاہر مربوط‘ فیصلے نے ’وزیراعظم کو ممکنہ طور پر بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔‘
ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا: ’سونک اور جاوید چل دیے، جانسن مشکل میں۔‘
دا گارڈین اور فنانشل ٹائمز نے بھی لکھا کہ وزیراعظم ’دھانے پر ہیں۔‘
تنازعے اور سکینڈل
حالیہ ماہ میں وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت تنازعوں اور سکینڈلز میں گھری رہی ہے۔
ان میں سے بڑا سکینڈل ’پارٹی گیٹ‘ ہے جس میں کرونا وبا کی سخت پابندیوں کے درمیان اپنے دفتر میں سٹاف پارٹی منعقد کرنے پر انہیں پولیس کی جانب سے جرمانہ بھی عائد ہوا۔
انہیں پارلیمانی تحقیقات بھی سامنا ہے جن سے یہ تعین کیا جائے گا کہ آیا انہوں نے ڈاؤننگ سٹریٹ میں پارٹی کے بارے میں اراکین اسمبلی سے جھوٹ بولا۔
پنچر کا استعفیٰ حالیہ ماہ میں پارٹی میں جسنی نوعیت کی نازیبا سرگرمیوں کا دوسرا کیس تھا۔
اس سے قبل اپریل میں پارٹی کے رکن پارلیمان نیل پیریش ہاؤس آف کامنز میں اپنے فون پر نازیبا ویڈیوز دیکھتے ہوئے پائے گئے جس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزیراعظم جانسن کی حکومت میں تنازعے ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب برطانیہ میں روزمرہ کے اخراجات میں اضافے کا بحران چل رہا ہے اور تنخواہیں اور کام کرنے کی صورت حال کے خلاف کئی یونینوں نے ہڑتالیں کی ہیں۔
اپوزیشن پارٹی لیبر کے سربراہ کیئر سٹارمر نے کہا کہ ’یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ حکومت گر رہی ہے۔‘