افغانستان میں طالبان حکومت کے قائم مقام وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے ہفتے کو کہا ہے کہ ملک پر امریکی پابندیاں جاری ہیں اور امریکہ اب بھی افغان عوام کے لیے آسانی نہیں چاہتا ہے۔
افغانستان کے نیوز نیٹ ورک آریانا نیوز پر شائع اور امارات اسلامی افغانستان کے واٹس گروپ میں جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق ملا محمد حسن اخوند نے معاشی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں 20 سال تک ہم سے لڑنے والا دشمن اب بھی نہیں چاہتا کہ یہ مظلوم اور تھکے ہوئے لوگ ذرا آرام کر لیں۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ دوسرے ممالک کو بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ افغان قائم مقام وزیراعظم کے بقول: ’وہ نہ تو مسلمانوں کے اثاثوں کو غیر منجمد کر رہا ہے اور نہ ہی دوسروں کو اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے اور ان مظلوم لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت دے رہا ہے تا کہ ان کی معاشی صورت حال میں تھوڑی بہتری آ سکے۔‘
انہوں نے مسلح اپوزیشن پر بھی زور دیا کہ وہ لڑائی بند کریں۔ انہوں کہا کہ ’آپ اس دنیا اور آخرت میں اپنی زندگی کیوں برباد کر رہے ہیں؟ کس لي؟ آپ کيا چاہتے ہو؟ آپ کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ کیا آپ اسلام، شریعت اور سلامتی چاہتے ہیں؟‘
ہفتے کو افغانستان بھر میں عید الاضحیٰ کی نماز ادا کی گئی۔ کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔
دوسری جانب صوبہ بلخ میں خفیہ ادارے کے سربراہ شاکر حامد کا کہنا تھا کہ ’لوگ چاہتے ہیں کہ ہم تحفظ فراہم کریں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم فلاح و بہبود یقینی بنائیں۔ اگر ہم چوروں کو نہیں پکڑتے، اگر ہم اغوا کاروں کو نہیں پکڑتے تو اسلام اور سلامتی کیسے غالب آئیں گے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبہ ننگرہار کے رہائشی نے کہا کہ ’اب لوگ محفوظ ماحول میں عید منانے کے لیے پارکس میں جاتے ہیں۔ اس سال امن کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔ یہ اچھی عید ہے۔‘
افغانستان کے سربراہ مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ نے سرکاری حکام کو ہدایت کی کہ وہ حکومت اور عوام کے درمیان فاصلوں کو نہ بڑھائیں۔
ہفتے کو قندھار کی عیدگاہ میں نمازعید کے اجتماع سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کے جو قوانین شریعت کے مطابق نہیں ان کو فوری ختم کیا جائے گا۔
قندہار کی مشہور عید گاہ میں ہر عید پر نماز طالبان کے امیر خود پڑھاتے ہیں۔ یہ عید گاہ ملا عمر نے تعمیر کروایا تھا اور وہی یہاں نماز عید پڑھاتے تھے۔
مولوی ہبت اللہ نے کہا کہ ’میں تمام وزارتوں کے حوالے سے جو اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دور حکومت کے 20 سالوں میں پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ ان کوعلما کی نگرانی میں دیا جائے اور اگر ان میں کوئی بھی شریعت کے خلاف یا عوام کے مفادات کے خلاف ہو۔ اس کو ہم ختم کرکے خالصتاً شرعی نظام لائیں گے۔ ‘
افغانستان کے رہنما نے کہا کہ سکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے اور شریعت کے نفاذ کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ انہوں نے شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں موجودہ نظام کا ساتھ دیں۔