آج سے ٹھیک ایک سال پہلے ٹیلی وژن پر ایک لڑکی کے قتل کی خبر ٹکرز کی صورت میں چلنا شروع ہوئی۔ یہ خبر باقی قتل کی خبروں کی طرح کچھ دیر چل کر بند ہو گئی، لیکن دن گزرنے کے ساتھ سامنے آنے والی تفصیلات نے سب کے دل دہلا دیے۔
پولیس کےمطابق یہ کوئی معمولی قتل نہیں تھا۔ نور مقدم کو تیز دھار آلے سے بے دردی سے قتل کر کے اس کا سر کاٹ کر جسم سے الگ کیا گیا تھا۔
قتل کی تفصیل سامنے آنے کے بعد ایسے لگا جیسے اس خبر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیس اخباروں، ٹی وی چینلوں، اور سوشل میڈیا کا سب سے بڑا موضوع بن گیا۔
فرانزک لیب کی جانب سے دی گئی ڈی این اے رپورٹ کے بعد انکشاف ہوا کہ قتل کرنے سے پہلے مرکزی مجرم ظاہر جعفر نے مقتولہ کا ریپ کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل اور قانونی ماہر سعد احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سزائے موت پر عمل درآمد کا طریقہ واضح ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ظاہر جعفر کو جس عدالت نے سزا سنائی وہی عدالت تمام ریکارڈ اور دستاویز کے ساتھ ہائی کورٹ کو ایک ریفرنس بھیجے گی جس کو ’مرڈر ریفرنس‘ کہتے ہیں۔
’اس ریفرنس کو جب تک کم از کم ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان کنفرم نہ کریں تب تک سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔‘
سعد کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ میں پہلے سے ہی کئی ریفرنس موجود ہوتے ہیں اور ایک ریفرنس کی باری آتے آتے چار سے پانچ سال لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت میں جب ریفرنس کی باری آتی ہے تو جج صاحبان ملزم کو بری کر سکتے ہیں، سزا کم کر سکتے ہیں یا پھر وہی مرڈر ریفرنس کنفرم بھی کر سکتے ہیں۔
قانونی ماہر حسن عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر جج صاحبان سزائے موت سے متعلق ریفرنس کو کنفرم کر دیں تو ملزم کے پاس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق ہوتا ہے۔
’اگر ملزم سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیتا ہے تو پھر سزائے موت پر عمل درآمد رک جاتا ہے جب تک سپریم کورٹ اس اپیل کا فیصلہ نہ کر لے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی باری آتے آتے چار سے پانچ سال لگ جاتے ہیں اور اگر سپریم کورٹ بھی ملزم کی درخواست مسترد کردے تو پھر ملزم کے پاس صدر مملکت کو رحم کی اپیل کا حق ہوتا ہے۔
حسن عباس کے مطابق جب ملزم صدر مملکت کو رحم کی اپیل کرتا ہے تو ایک بار پھر سزائے موت کا عمل رک جاتا ہے۔ ’چونکہ صدر مملکت کے پاس پہلے سے ہی کئی درخواستیں ہوتی ہیں اور پھر ایک اپیل کی باری آنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ یوں درخواستوں کے معاملے اور ان پر فیصلے ہوتے ہوتے 10 سال لگ سکتے ہیں۔
نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے ایک اور درخواست دائر کر دی
نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ظاہر جعفر کے والدین اور تھراپی ورکس کے عملے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے، جبکہ ظاہر جعفر کے گھر کے ملازمین کی سزا دس، دس سال سے بڑھانے کے لیے بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ خاور نے بتایا کہ عدالت نے ریپ کے الزام پر ظاہر جعفر کو عمر قید کی سزا دی ہے، اس سزا کو بڑھا کر سزائے موت میں تبدیل کرنے کی بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ظاہر جعفر نے جیل میں رہتے ہوئے ایک درخواست کی جس کو جیل اپیل کہتے ہیں۔ ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئندہ ماہ ستمبر میں سماعت ہو گی جس میں درخواستیں منظور کرنے سے متعلق ابتدائی بحث ہو گی۔‘
علی عمران کے کیس میں برق رفتاری سے فیصلہ
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سزائے موت کے فیصلے کے بعد اس پر عمل درآمد میں 10 سال لگ سکتے ہیں، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔
قصور میں کم سن زینب اور دوسری بچیوں کے ریپ اور قتل کے مجرم علی عمران کی سزائے موت کے فیصلے کے بعد صرف آٹھ ماہ اور پانچ دن کے اندر اسے پھانسی دے دی گئی تھی۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت نے 12 فروری، 2017 کو علی عمران کو سزائے موت سنائی تھی۔ علی عمران نے آٹھ دن بعد 20 فروری کو اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ تاہم صرف ایک ماہ کے اندر اند ہائی کورٹ نے یہ اپیل مسترد کر دی۔
علی عمران نے سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر ہائی کورٹ کے فیصلے کے ڈھائی ماہ بعد سپریم کورٹ نے بھی یہ اپیل مسترد کر دی۔
آخری مرحلہ صدر کے پاس اپیل کرنے کا تھا۔ 10 اکتوبر کو صدر عارف علوی نے بھی علی عمران کی اپیل مسترد کر دی اور اس کے ایک ہفتے بعد 17 اکتوبر کو علی عمران کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔