بلوچستان کے مختلف ضلعے اس وقت مون سون بارشوں کے باعث سیلاب کا سامنا کررہے ہیں جن میں ضلع لسبیلہ بھی شامل ہے۔
جہاں ایک طرف سیلابی ریلوں نے کئی لوگوں کو بے گھر کردیا وہاں قومی شاہراہ بھی مختلف مقامات سے بہہ گئی ہے۔
انور رند تحصیل سونمیانی ضلع لسبیلہ کے رہائشی ہیں جو امداد کے لیے وندر پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا ’اللہ کا کرم ہوا کہ ہمارے گوٹھ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن بچا کچھ نہیں۔ ہمارے بچے تین دن سے خوراک اور پانی کو ترس رہے ہیں۔‘
انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں سیلاب کا پانی دو دفعہ آیا۔ پہلی دفعہ گیارہ جولائی کو اور دوسری مرتبہ پچیس جولائی کو زیادہ پانی آیا۔
’ہم تین دن بغیر پانی اور کھانے کے سڑک پر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد انتظامیہ کے لوگ آئے۔ چونکہ ہم لوگ مرکزی شاہراہ سے دو کلو میٹر اندر کی طرف بیٹھے تھے اس لیے انتظامیہ کے لوگوں نے مرکزی شاہراہ پر بیٹھے لوگوں میں کچھ سامان تقسیم کیا لیکن ہمارے پاس کوئی نہیں آیا۔ اس سے پہلے جب سیلاب آیا تھا تو ہمیں کچھ راشن دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس بارہم تین سے بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔ کسی نے ایک گلاس پانی تک نہہں پوچھا ہے۔ انور کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر میں چھ فٹ سے زیادہ پانی کھڑا ہے۔
انور کہتے ہیں کہ ’رند محلہ گوٹھ وندر میں 60 گھر تھے جو سب کے سب پانی میں غرق ہوچکے ہیں۔ گھرکا سامان، مال مویشی، نہ کچھ اور نکال سکے۔ لوگ پہنے ہوئے کپڑوں کےساتھ پانی سے اپنے اور اپنے بچوں کو نکالنےمیں کامیاب رہے۔ گھر، سامان، فصلیں اور ہمارا مستقبل بھی پانی کی نظر ہوگیا ہے۔‘
’جب بھوک نے زیادہ تنگ کیا اور بچوں کی حالت ہم نہ دیکھ سکے تو آج بدھ کے روز ہم نے وندر پریس کلب کے سامنے آکر احتجاج کیا۔ تاکہ حکومت کے لوگ شاید ہمیں کچھ راشن اور سامان دے جائیں۔‘
انور کہتے ہیں کہ ’ہمارے گوٹھ میں کپاس، سبزیاں، بھنڈی اور مرچی کی فصل تیار تھی جو اب بالکل ختم ہوچکی ہے۔ دو ٹیوب ویل تھے وہ بھی پانی نے خراب کردیے، شمسی پینل بھی تباہ ہوگئے۔ زرعی زمینوں میں مزدوری کرنے والا بندہ ہوں۔ میرے ساتھ زمینداروں کو بھی لاکھوں کے نقصانات ہوئے ہیں۔ وہ سب بھی پریشان ہیں کہ جن سے قرضہ لے کر زمین پر ہل چلایا اور بیج ڈالا تھا اس کو کس طرح ادا کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر کی طرف سےجاری بیان میں کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ کی کوئیک رسپانس ٹیم نے اوڑکی کے سیلاب کے پھنسے لوگوں کو نکالنا شروع کردیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ سیلابی ریلوں نے سب سے زیادہ لسبیلہ کے نشیبی علاقوں کے ہاری خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ ڈی سی افتخار بگٹی نے زمینداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاریوں کی لسٹ مرتب کرکے انتظامیہ کے حوالے کریں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کتنے لوگوں کو نکال لیا گیا اور کتنے ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔
ڈی سی لسبیلہ نے مزید کہا کہ بارش اور سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں میں امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔ سکن کے مقام پر کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ بحال کردی گئی ہے۔ گذشتہ رات سے سینکڑوں گاڑیاں شاہراہ کی بحالی کی منتظرہیں۔ حب ندی میں بجلی کے گرنے والے ٹاور پر کے الیکٹرک نے دوبارہ کام شروع کردیا ہے۔ حب ندی میں اس وقت ایک لاکھ بیس ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے۔
بیان میں ڈی سی نے مزید کہا کہ حب ڈیم کے اسپیل وے سے نکلنے والے سیلابی ریلوں میں کمی آئی ہے، آرسی ڈی شاہراہ بحالی کے لیے سیلاب متاثرہ جگہ پر مشینری پہنچادی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گنداواہ میں اربن فلڈنگ ہوئی۔ جہاں پرلوگوں کے زمینوں پر سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی ہے۔
مقامی زمیندار عصمت اللہ لاشاری نے بتایاکہ پانی نے ہمارے بیس ایکڑ پر کاشت فصل تباہ کردی۔ ٹیوب ویل اور شمسی پینلز کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ سیلاب سے ہمارا پندرہ سے سولہ لاکھ روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہمارا ذریعہ معاش یہی ہے۔