پاکستان کے 75 سال: سوات کا الحاق کیسے ہوا؟

پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے تقسیم ہند کے وقت آزاد ریاستوں پر دستاویزی فلم کی سیریز کا آغاز کیا ہے۔ دوسری کہانی میں جانیے کہ سوات کب اور کیسے پاکستان کا حصہ بنا۔

ضلع سوات بھی ان آزاد ریاستوں میں شامل تھا، جنہیں بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا تھا (فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے 75 سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو نے تقسیم ہند کے وقت آزاد ریاستوں پر دستاویزی فلم کی سیریز کا آغاز کیا ہے۔ دوسری کہانی میں جانیے کہ سوات کب اور کیسے پاکستان کا حصہ بنا۔


’شاہی عادات و اطوار تو پہلے تھیں اور نہ اب ہم میں ہیں۔ میرے دادا ہمیشہ ترقی اور تعلیم کے حق میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات میں پہلا سکول 1923 میں قائم کیا گیا جو آج بھی موجود ہے اور اس سکول کے پہلے پرنسپل ایک پی ایچ ڈی شخص تھے۔‘

یہ کہنا تھا کہ ضلع سوات کے شاہی خاندان کے میاں گل شہریار امیر زیب کا جو (سابق) ریاست سوات کے آخری حکمران (والی) میاں گل جہانزیب باچا صاحب کے پوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’یہاں ہم نے کوئی قلعہ قائم کیا ہے اور نہ کسی بڑے محل میں رہتے ہیں بلکہ ایک عام سا گھر ہے جو میرے والد نے 1960میں بنایا تھا۔‘

قیام پاکستان کے 75 سال مکمل ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو کی اس سیریز میں تقسیم ہند کے وقت قائم آزاد ریاستوں کی تاریخ پر بات کی جارہی ہے۔ ضلع سوات بھی ان آزاد ریاستوں میں شامل تھا، جنہیں بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا تھا۔

ریاست سوات کی تاریخ کیا ہے؟

سوات کے لیے مختلف کتابوں میں ’ادھیانہ‘ کا نام استعمال کیا گیا ہے۔ سنسکرت میں اس کے معنی ’باغ‘ کے ہیں۔ بعض تاریخ دانوں نے سوات کو ’ایشیا کا سوئٹزرلینڈ‘ بھی کہا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل ریسرچ 2013 میں شائع ہونے والے ایک مقالے، جس کے محقق فخر الاسلام تھے، کے مطابق سوات کا پرانا نام ’سواد‘ تھا جس کے معنی ہیں کالا، اور یہ نام شاید سوات کی کالی مٹی کی وجہ سے اس کے لیے استعمال کیا گیا ہو جو فصل کے لیے زرخیز سمجھی جاتی ہے۔

تاہم اسی نام کے بارے میں کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ نام سوات میں رہنے والے سواتی قوم کی وجہ سے رکھ دیا گیا ہے۔

سوات سمیت پشاور کو 333 قبل مسیح میں گندھارا وادی کہا جاتا تھا۔ بدھ مت کے راجہ ارنس اس وقت سوات کے حکمران تھے جبکہ 304 قبل میسح میں سکندر اعظم نے سوات پر قبضہ کیا تھا اور سوات کو اس وقت پنجاب کے راجہ چندرا کے حوالے کیا تھا۔

راجہ چندرا کے دور حکومت میں بدھ مت کو بہت فروغ ملا جو آج بھی بدھ مت کے مختلف تاریخی مقامات کی صورت وہاں موجود ہے۔

سوات میں آخری بدھ حکمران راجہ گیرا تھے جنہوں نے سوات پر 1100 ہجری تک حکمرانی کی تھی اور سوات کے علاقے اوڈیگرام میں ان کا قلعہ بھی موجود ہے۔ انہیں سلطان محمود غزنوی نے شکست دی تھی۔

محمود غزنوی نے اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو 1985میں ایک اطالوی ماہر آثار قدیمہ نے دریافت کی۔ اس مسجد کو محمود غزنوی مسجد کہا جاتا ہے۔ 

مقالے کے مطابق محمود غزنوی دیر اور باجوڑ کے علاقے سے سوات میں داخل ہوئے اور دریائے سوات پار کر کے اوڈیگرم میں مقیم ہوگئے۔ وہاں پر اپنی فوج منظم کرنے کے بعد بدھ مت کے آخری راجا گیرار کو جنگ میں ہلاک کیا، جس کے بعد سوات میں بدھ مت کا سورج غروب ہوگیا اور اسلام پھیلنا شروع ہوا۔

محکمہ آثار قدیمہ اور میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محمود غزنوی نے قلعے پر حملے کے لیے پیر خوشحال کو کمانڈر بنایا تھا جو راجا گیرا کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے تھے اور ان کا مزار آج بھی اوڈیگرام میں موجود ہے۔

تاریخ دانوں کے مطابق محمود غزنوی کے آرمی میں دو قبیلے سواتی اور دلزاک سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے لیکن بعد میں ان قبیلوں کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور دلزاک قبیلے کے لوگ پشاور اور مردان جبکہ سواتی قبیلے کے لوگ سوات ہی میں رہ گئے۔

اس کے بعد کابل سے یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملک احمد خان (سوات ایکسپریس وے کا ایک ٹول پلازا ان کے نام پر ہے) کی سربراہی میں کابل سے گندھارا داخل ہوگئے اور سوات پر چڑھائی کی اور ان دنوں میں سلطان اویس سوات کے حکمران تھے اور سواتی قبیلے اور یوسفزئی قبیلے کے مابین تقریبا 12سالوں تک لڑائیاں ہوتی رہیں۔

سلطان اویس کو یوسفزئی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ چترال چلے گئے جبکہ یوسفزئی نے سوات پر حکمرانی شروع کی تاہم اسی دوران سوات کا کوئی باقاعدہ حکمران نہیں تھا اور معمولی باتوں پر قبیلوں کے مابین لڑائیاں کئی مہینوں تک جاری رہتیں اور یہ عدم استحکام 1918تک جاری رہا۔

بعد میں مغل اور یوسفزئی کے مابین میں لڑائیاں ہوتی رہیں، مغل چاہتے تھے کہ سوات کے علاقے پر قبضہ کر کے اس پر اپنا تسلط قائم کریں تاہم ایسا نہ ہو سکا اور اس علاقے میں یہ عدم استحکام کی فضا میاں گل عبد الغفور(سیدو بابا) تک جاری رہی جن کو ریاست سوات کا بانی کہتے ہیں۔

ریاست سوات کیسے بنی؟

حضرت گل عبد الغفور عرف سيدو بابا 1794 میں سوات کے علاقے شموزئی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاوٴں اور بعد میں گجر گھڑی مردان سے حاصل کی۔

ایک مقالے کے مطابق کچھ وقت تک عبدالغفور پشاور کے چمکنی علاقے اور نوشہرہ کے کاکا صاحب علاقے میں بھی رہے اور 1845 میں وہ واپس سیدو شریف منتقل ہوگئے۔ اس وقت عبدالغفور کو اخوند کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔ 

والی سوات کے پوتے شہریار امیر زیب نے بتایا کہ عبد الغفور عرس سیدو بابا کو لوگ روحانی پیشوا سمجھتے تھے اور انہوں نے ہی جدید ریاست سوات کی بنیاد رکھی تھی اور اس وقت سے سوات میں رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لیتے تھے۔

عبد الغفور نے مختلف ’جہادی‘ معرکوں میں بھی حصہ لیا جن میں بونیر کے مقام پر امبیلہ وار اور بعد میں سکھوں کے خلاف بھی کابل کے اس وقت کے امیر دوست محمد خان کی درخواست پر لڑے تھے۔

مقالے کے مطابق عبد الغفور کی عقل و فہم کی وجہ سے وہ صرف سوات نہیں بلکہ برصغیر، عراق اور افغانستان میں بھی کافی مشہور تھے اور اس وقت لاکھوں کی تعداد میں لوگ  ان کے مرید بن گئے تھے۔ اسی دور میں ریاست سوات کی بنیاد رکھی گئی۔

عبد الغفور 1877میں وفات  پاگئے اور سوات کے علاقے سیدو شریف میں ان کی تدفین کی گئی۔

سوات کی پہلی شرعی حکومت 

گل عبد الغفور کے دور میں ریاست کی بنیاد تو رکھی گئی لیکن ریاست کو چلانے کے لیے ایک حکمران کی ضرورت تھی اور یوں انہوں نے ایک جرگہ بلایا اور اس وقت سوات، دیر، بونیر اور باجوڑ سے 1849 میں ایک جرگہ بلایا اور اس جرگے میں پیر بابا کے خاندان سے تعلق رکھنے والے سید اکبر شاہ کو امیر مقرر کیا اور سوات کا علاقہ غالیگے اس وقت حکومت کا مرکز تھا۔

تاہم بعد میں مقالے  کے مطابق سوات کے لوگ اس وقت اکبر شاہ کے افسران  کے مظالم سے تنگ آ گئے اور حالات تقریباً سول وار تک پہنچ گئے جبکہ 1857 کی جنگ کے دوران سید اکبر شاہ وفات پا گئے تھے۔ اس وقت جنگ صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کے علاقوں تک پہنچ گئی تھی  اور ’یوسفی‘ نامی کتاب میں ہربرٹ ایڈورڈ کی کا ایک بیان منسوب ہے کہ اگر سید اکبر شاہ زندہ ہوتے تو 1857کی ’جنگ آزادی‘ کے نتائج مختلف ہوتے۔

عبد الغفور عرف سیدو بابا کے دو بیٹے تھے، جن میں سے ایک کا نام میاں گل عبدالحنان جبکہ دوسرے اور چھوٹے بیٹے کا نام عبد الخالق تھا۔ سید اکبر شاہ کی وفات کے بعد لوگوں کی نظریں عبدالغفور عرف سیدو بابا کی طرف تھیں اور جب سیدو بابا بیمار پڑ گئے تو ان کے بیٹوں نے اپنی آرمی کے ساتھ دیر کے علاقے تالاش میں پڑاوٴ ڈال دیا۔

’تاریخ ریاست سوات‘ نامی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ جب سیدو بابا کا انتقال ہوگیا اور تالاش میں ان کے بیٹوں تک خبر پہنچی تو ان کے بڑے بیٹے سیدھا سوات چلے گئے اور سوات کے لوگوں نے ان کو سیدو بابا کا جان نشین مقرر کر دیا۔

سیدو بابا کے چھوٹے بیٹے کو جب پتہ چلا کہ ان کے بڑے بھائی انہیں بتائے بغیر سوات چلے گئے تو انہوں نے پریشانی کے عالم میں سوات واپسی کی اور مذہب کی طرف مائل ہوگئے اور بعد میں ’روحانی پیشوا‘ بن گئے۔ 

تاریخ ریاست سوات نامی کتاب میں درج ہے کہ عبد الخالق نے اس وقت تعلیم اور رفاہ عامہ کے کاموں پر توجہ دی تھی اور لنگر خانہ بھی چلاتے رہے جس سے ضرورت مندوں کو کھانا ملتا تھا اور یہ سوات میں پہلی شرعی حکومت تھی۔

عبد الخالق کا انتقال 1892 میں ہوا۔ ان کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام میاں گل عبد الودود اور دوسرے کا نام میاں گل عبد المنان تھا تاہم عبد الخالق کے بعد سوات میں پہلی شرعی حکومت ختم ہوگئی۔

میاں گل عبدالودود: جدید ریاست سوات کے بانی 

میاں گل عبدالودود 1877 میں پیدا ہوئے تھے۔ ’سوات منزل و ترقی کی طرف‘ نامی کتاب میں درج ہے کہ میاں گل عبدالودود نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور انہوں نے یہ اپنی سوانح عمری میں بھی لکھا ہے کہ والد کی وفات کے بعد ان پر ذمہ داریاں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی۔

میاں گل عبد الودود 1908 میں حج پر چلے گئے اور واپسی پر انہیں چند مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایک ریاست دیر کے نواب کی طرف سے سوات پر حملہ تھا جبکہ دوسری جانب سوات کی حکمرانی پر اندرونی اختلافات بھی تھے۔

’ملینیم اینڈ کریزما امنگ پٹھانز‘ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ سید اکبر شاہ (سوات کے پہلے امیر) کے پوتے سید عبد الجبار نے سوات پر 1914 میں قبضہ کیا اور اقتدار سے میاں گل عبد الودود کو بے دخل کردیا اور یوں عبدالودود چکدرہ چلے گئے اور وہاں سے تیاری کر کے واپس سوات کا اقتدار سنبھال لیا اور 1917میں کبل کے مقام پر میاں گل عبدالودود کو سوات کا حکمران مقرر کیا گیا۔ لوگوں نے ان کو ’بادشاہ صاحب‘ کا ٹائٹل بھی دے دیا۔

ریاست سوات کا الحاق 

میاں گل عبدالودود تقریباً 32 سال تک سوات کے حکمران رہے اور تقسیم کے وقت جب آزاد ریاستوں کو الحاق کا آپشن دیا گیا، تو بادشاہ صاحب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور یوں ریاست سوات پاکستان کا حصہ بن گئی۔

اسی دوران میاں گل عبدالودود نے استعفیٰ دے دیا اور اپنے بیٹے میاں گل جہانزیب کو حکمران بنایا۔ اس وقت ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق تو ہوا تھا، تاہم سوات ریاست کی آزاد حیثیت برقرار تھی۔ 

میاں گل عبدالحق جہانزیب سوات ریاست کے والی (حکمران) تھے۔ فخر الاسلام کے مقالے میں لکھا گیا ہے کہ ’جب جہانزیب تھرڈ ائیر کے طالب علم تھے، تو 1926 میں بادشاہ صاحب کو علاقے کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ انہیں ریاست کے معاملات میں شامل کیا جائے اور لوگوں کے اصرار پر ان کے والد نے انہیں سوات واپسی کے لیے حکم دیا۔ بادشاہ صاحب نے جہانزیب کو 1923 میں 15 برس کی عمر میں ولی عہد منتخب کیا تھا تاہم برطانوی راج ان کو ولی عہد نہیں مانتا تھا۔ دس سال بعد برطانوی راج نے بھی ان کو ولی عہد تسلیم کردیا۔

1940 میں جہانزیب سوات آرمی کے کمانڈر ان چیف بنا دیے گئے۔ 1949میں اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نوابزادہ  لیاقت علی خان نے ایک تقریب کے دوران جہازیب کو والی سوات مقرر کیا۔ بعد میں حکومت پاکستان کی طرف سے میاں گل عبدالحق جہانزیب کو ’ہلال پاکستان اور ہلال قائداعظم‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ 

چیف مارشل لا ایڈمنسٹریشن آغا محمد یحییٰ خان نے دیگر آزاد ریاستوں کی طرح سوات کو بھی 1969 میں پاکستان میں مکمل طور پر ضم کردیا اور یوں ریاست سوات کا سورج غروب ہو گیا۔

پاکستان سے الحاق کیوں اور کیسے ہوا تھا؟

الحاق کے بارے میں  شہریار امیر زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت تقریباً ساری ریاستیں بھارت اور پاکستان میں ضم ہو گئی تھیں لیکن دیر، سوات، چترال اور ریاست امب رہ گئی تھیں اور میرے نانا یہ بات کرتے تھے کہ آج یا کل، سوات کو ضم ہونا ہی ہے۔ 

شہریار نے بتایا: ’دیر کے نواب میرے دادا کو کہتے تھے کہ آپ سوات کے لوگوں کو تعلیم کے لیے کراچی اور دیگر علاقوں میں بھیجتے ہیں تو یہ تو آپ اپنے مخالفین پیدا کر رہے تھے اور اس پر میرے دادا کہتے تھے کہ آج نہیں تو کل یہ ریاست ضم ہو ہو جانی ہے(اس لیے اس کی ترقی ہونی چاہیے)۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دستاویزی فلم کی عکس بندی کے لیے ہم سوات میں تین دن رہے لیکن ہم نے وہاں پر کوئی بڑا قلعہ نہیں دیکھا جس طرح دیر، سوات اور ریاست امب میں تھا۔ اس حوالے سے  شہریار نے بتایا کہ سوات کے لوگوں کے ساتھ ہمارا روحانی تعلق تھا اور ہمارا خاندان بہت سادہ زندگی گزارتا تھا۔ دوسری ریاستوں کے حکمرانوں کی طرح ہم نے زندگی نہیں گزاری ہے۔

الحاق کے بعد سوات نے پاکستان کو کیا دیا؟ اس کے جواب میں شہریار نے بتایا کہ میرے پردادا نے مسلم لیگ کی بہت خدمت کی تھی اور تقسیم ہند کے بعد جب پناہ گزین کراچی آئے تو انہوں نے اپنی جیب سے تین لاکھ چندہ دیا تھا۔

’آج جو یہاں سکول اور کالجز آپ دیکھتے ہیں، تو ان کی بنیاد والی سوات نے رکھی تھی جو تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔‘

کیا سوات کو زبردستی 1969 میں ضم کیا گیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں شہریار کا کہنا تھا کہ ’زبردستی الحاق نہیں ہوا تھا بلکہ میرے دادا تو تب والی بنے تھے، جب میرے پردادا زندہ تھے۔ اور میرے دادا کی تاج پوشی کے لیے لیاقت علی خان آئے تھے اور مرضی سے الحاق کیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے احتجاج کیا تھا تاہم میرے دادا ان کو کہتے تھے کہ گھروں میں جائیں کیونکہ اگر وہ الحاق نہ کرتے تو ٹینک اور فوج بھیجی جاتی تو الحاق تو ہونا ہی ہے۔‘

الحاق سے پہلے اور بعد کا سوات 

شہریار امیر زیب نے بتایا کہ والی کے دور میں سوات ایک فلاحی ریاست تھی اور ہسپتال میں مفت علاج مفت دوائیاں، ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا مفت ملتا تھا۔

اسی طرح تعلیم بالکل مفت تھی اور وکیلوں کے کوئی پیسے نہیں تھے۔ دونوں فریقین پیش ہوتے تھے اور دو تین دنوں میں فیصلہ ہوجاتا تھا۔ ’میں تو سوچتا ہوں کہ کاش میں اس وقت ہوتا اور اس ریاست کی تجربہ حاصل کرتے۔‘

سوات اور دہشت گردی کی لہر 

سوات میں 2007 سے لے کر 2010 تک شدت پسندی  کی لہر چلی تھی۔ اس وقت ملا فضل اللہ (جو بعد میں تحریک طالبان پاکسان کے امیر بھی بن گئے تھے) نے ایک ریڈیو سٹیشن کھول رکھا تھا، جس کے ذریعے وہ سوات میں شرعی حکومت کا مطالبہ کرتے تھے۔

 تحریک طالبان پاکستان نے وہاں پر ہزاروں کارروائیاں کی تھی اور بعد میں پاکستان فوج نے وہاں پر ملٹری آپریشن شروع کرکے سوات کو کلیئر کیا تھا۔ 

شدت پسندی کی ابتدائی لہر میں سوات میں سب سے پہلا نشانہ شاہی خاندان ہی تھا اور شہریار امیر زیب کے والد اسفندیار امیر زیب کو سوات میں قتل کردیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل جرنل آف اکیڈمک ریسرچ ان بزنس اینڈ سوشل سائنسز کے مطابق ریڈیو پر وہ رات کو نام لے کر شخصیات کو مخاطب کرتے تھے کہ فلاں کام انہوں نے غلط کیا ہے اور صبح ان کو قتل کردیا جائے گا۔ 

سوات میں شدت پسندی کی لہر گزرنے کے بعد کافی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ نئی نئی عمارتیں، ہوٹل اور کاروبار عروج  پر ہے تاہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر سوات میں شدت پسندی نہ اٹھتی، تو آج سوات اس سے بہتر اور ترقی یافتہ شہر بن سکتا تھا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ