ایک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں سٹارٹ اپس کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست پر دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کا معاشی مرکز کراچی ٹاپ 10 شہروں میں شامل ہوگیا ہے۔
سٹارٹ اپس پر تحقیق کرنے والی ویب سائٹ ’سٹارٹ اپ بلنک‘ نے اپنی رپورٹ ’گلوبل سٹارٹ اپ ایکوسسٹم 2022‘ میں دنیا بھر کے ممالک میں سٹارٹ اپس کے لیے ماحول کے حوالے سے نئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق کراچی جنوبی ایشیا میں سٹارٹ اپس کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے والے ٹاپ 10 شہروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے، جس پر پہلے صرف بھارتی شہروں کا راج تھا۔ رپورٹ کے مطابق کراچی گذشتہ سال کے مقابلے میں چار درجے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں 10ویں نمبر پر آگیا ہے، جبکہ ٹاپ 10 میں باقی شہر بھارتی ہیں۔
جہاں یہ کراچی کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے وہیں لاہور کی درجہ بندی میں 48 درجے کمی آئی ہے جس کے بعد 1000 شہروں کی عالمی فہرست میں لاہور 305 نمبر پر آگیا ہے۔ اسلام آباد ایک درجے کی کمی کے بعد عالمی فہرست میں 438 نمبر پر آگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ سال پاکستان کے چھوٹے شہروں کے لیے بھی اچھا نہیں رہا۔ فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اور جہلم عالمی ٹاپ 1000 شہروں کی فہرست سے باہر نکل گئے۔ 2021 میں پاکستان کے سات شہر عالمی فہرست پر تھے، مگر اب صرف تین رہ گئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بائیکیا اور صحت کہانی جیسے سٹارٹ اپس نے کافی کامیابی حاصل کی ہے مگر اب بھی بہت سے سٹارٹ اپس کے لیے زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ حالیہ ماہ میں ائیرلفٹ اور سوول جیسے بڑے سٹارٹ بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ مہنگائی اور ملک میں معاشی بحران بتائی گئی ہے۔
زمینی حقائق کیا ہیں؟
نیشنل انکیوبیشن سینٹر کراچی (این آئی سی) کے پراجیکٹ مینیجر ماجد حسین کے مطابق موجودہ معاشی حالات میں سٹارٹ اپس کے لیے اپنی ٹیم کو بڑھانا اور پیٹرول کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ’کسی بھی سٹارٹ کے لیے انتہائی بنیادی آلات جیسے لیپ ٹاپ، موبائل فون، کیمرا، مختلف سافٹ وئیرز وغیرہ خریدنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔ دکان دار قیمتوں کی کوٹیشن دینے کے ساتھ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ اگلے دن یا ایک ہفتے میں ڈالر کی قیمت بڑھی تو نئی قیمتیں ہی لاگو ہوں گی۔
’بعض اوقات اس کی وجہ سے سٹارٹ اپس کے بجٹ میں کئی ہزار یا لاکھ روپے کا فرق آجاتا ہے۔ تو کاروباری افراد کے دلوں میں اس سے کافی ڈر بیٹھ گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ این آئی سی میں اس وقت 224 سٹارٹ اپس ہیں لیکن پچھلے سال سے یہ رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ کئی لوگ اپنے سٹارٹ اپس شروع کرکے بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
ان نا کہنا تھا: ’پہلے یہ شرح زیادہ تھی مگر اب این آئی سی میں ہم لوگوں کو ان کے سٹارٹ اپس کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریسرچ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس سے یہ شرح 2021 کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے مگر موجودہ معاشی بحران ایک اور بڑا چیلنج ہے جس پر ابھی تک قابو نہیں کر پائے ہیں۔‘
سٹارٹ اپس کو کیا مسائل ہیں؟
ہم نے کراچی کے مختلف سٹارٹ اپس کے بانیوں سے بات کی اور پوچھا کہ ان کے سٹارٹ اپ کے ناکامیاب ہونے کی کیا وجہ ہے۔
ایک سال قبل لانچ ہونے والی الیکٹرانک آلات کی شاپنگ ویب سائٹ ’یوزڈ ڈیلز‘ کے مالک عاقب مغل نے بتایا کہ انہوں نے عارضی طور پر ویب سائٹ کے آپریشنز روک رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اسے اپنی جمع پونجی سے اسے شروع کیا تھا۔ ایک سال کے دوران مقامی اور امپورٹد الیکٹرانک آلات کی قیمتوں، ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹی میں کافی اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے کاروبار چلانے میں کافی مشکل پیش آرہی تھی۔
’منافعے کی جگہ نقصان ہورہا تھا بلکہ کاروبار پر جتنے پیسے لگائے تھے وہ بھی ریکور نہیں ہوسکے۔ اس لیے اب میں نے کچھ وقت تک اپنا کاروبار روک کر ایک نوکری شروع کردی ہے۔‘
حال ہی میں بند ہونے والے سٹارٹ اپ ’میریز کرافٹس‘ کے بانی محمد واصف شارق نے بتایا کہ ان کا پلیٹ فارم صارفین کو آرٹ کے ڈی آئی وائے، ٹپس، ہیکس اور ٹیوٹوریلز فراہم کر رہا تھا، مگر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔
محمد واصف شارق کا کہنا تھا: ’میریز کرافٹس بند ہونے کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ ہمارا بزنس ماڈل کافی کمزور تھا۔ ہمیں اس میں کافی پیسے لگانے پڑ رہے تھے۔ جتنے پیسے لگاتے تھے اس سے بزنس ماڈل پر مثبت اثر پڑتا تھا مگر کرونا کے دور کے بعد ہمیں پیسوں کے مسائل پیش آنے لگے، جس کی وجہ سے ہم اس پر مزید کام نہیں کرسکے کیونکہ نیا مواد بنانے کے لیے ہمیں مزید پیسے چاہیے تھے جس کا کہیں سے انتظام نہیں ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ کاروبار ختم ہونے کی دوسری وجہ مہنگائی تھی۔ ’ہم اپنا مواد بنانے کے لیے مارکیٹ سے جو سامان خریدتے تھے ان کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوگیا تھا۔ اس وجہ سے ہم نے سامان خریدنا کم کردیا مگر اس سے ہمارے مواد پر برا اثر پڑا۔ نہ ہم پہلے کے معیار جیسا کام کرسکے اور نہ ہی مستقل مزاجی رہی۔ آخر کار ہم نے اپنا سٹارٹ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔‘
تفلی نامی سٹارٹ اپ ایک ایپ اور ویب پورٹل ہے جس کا مقصد والدین، اساتذہ اور سکول انتظامیہ کے درمیان خلیج کو ختم کرنا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے والدین اپنے بچے کی پڑھائی، ایکسٹرا ٹیوشن، سکول کے معاملات یعنی نصاب دیکھنا یا فیس جمع کروانا اور ٹرانسپورٹ سے متعلق معاملات کو ایک ہی جگہ مینیج کر سکتے ہیں۔
تفلی کے بانی سمیر انصاری نے بتایا: ’میرا سٹارٹ چل رہا ہے مگر اسے چلانا انتہائی مشکل ہورہا ہے۔ یہ سٹارٹ اپ بند ہونے کی نہج پر ہے مگر ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بند نہ ہو۔ ملکی معاشی بحران کے باعث سکولز اور والدین ہمارے سٹارٹ اپ میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے سٹارٹ اپس کافی کامیاب ہورہے ہیں مگر یہاں اسے لگژری یا غیر ضروری خرچے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پلیٹ فارم ہر ماہ فی بچہ صرف 100 روپے چارج کر رہا ہے، مگر سکولز کا کہنا ہے کہ معاشی بحران کے باعث وہ اسے اپنے بجٹ میں شامل نہیں کرسکتے اور نہ ہی والدین فیس کے ساتھ اس قیمت کی ادائیگی کرنے کے لیے راضی ہیں کیونکہ ان کے لیے تو صرف سکول کی فیس دینا بھی مشکل ہے۔
GABITT نامی سٹارٹ اپ کریم اور اوبر کی طرح ایک مقامی ٹرانسپورٹ سروس تھی جو روزمرہ کے سفر کے لیے ٹرانسپورٹیشن فراہم کرتی تھی۔ یہ دو سال پہلے بنی تھی۔ گذشتہ سال یہ عارضی طور پر بند ہوئی اور اب مکمل بند ہو چکی ہے۔
ایپ کے ملک فرحان احمد نے بتایا: ’پیٹرول اور سی این جی کی بڑھتی قیمتوں اور گاڑیوں کی مینٹیننس کے بڑھتے ہوئے اخراجات اٹھانا ہمارے لیے مشکل سے مشکل طر ہوگیا تھا۔ کراچی کی سڑکوں کی ابتر حالت کی وجہ سے گاڑیوں میں مسائل آتے رہتے تھے اور ان کی مرمت ہمارے لیے کافی مہنگی پڑتی تھی۔
’ہم نے اسے مکمل طور پر بند کرنے سے پہلے کئی جگہوں سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کی، گرانٹس کے لیے اپلائی کیا مگر کہیں سے بھی کوئی سرمایہ کاری نہ ملی۔‘
پاکستان میں سٹارٹ اپس کا کیا مستقبل ہے؟
این آئی سی حیدرآباد کے پراجیکٹ ڈائریکڑر اظفر حسین، جنہوں نے کئی سال کراچی میں بطور پراجیکٹ مینیجر اپنے فرائض انجام دیے ہیں، نے بتایا: ’سٹارٹ اپس ہائی رسک اور ہائی رٹرن کاروبار ہوتے ہیں۔ اگر نہیں چلے تو جلد بند ہوجاتے ہیں اور اگر چل گئے تو کافی منافع بخش ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر 90 فیصد سٹارٹ اپس ناکامیاب ہی ہوتے ہیں اور صرف 10 فیصد کامیاب ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’پچھلے تین سے چار سالوں میں بین الاقوامی سٹارٹ اپس کی مد میں ملک میں 30 کروڑ ڈالر کی انویسٹمنٹ آئی ہے۔ اس میں وہ سارے بڑے سٹارٹ اپس شامل ہیں جو ٹرانسپورٹیشن، کھانے پینے، ای کامرس اور شاپنگ سے منسلک ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم روز مرہ کی بنیاد پر ان سٹارٹ اپس کو استعمال بھی کرتے ہیں اور انہیں حال ہی میں بڑے پیمانے پر فنڈنگ ملنا شروع ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ چل رہے ہیں اور منافع بھی کما رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیگر سٹارٹ اپس کے کامیاب ہونے کی وجہ پاکستان میں سمارٹ فون کے صارفین اور انٹرنیٹ تک رسائی میں اضافہ ہے۔ ’اس کے علاوہ حکومت کے معاشی ریگیولیٹرز سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آر نے وینچر کیپٹل اسٹس یعنی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کچھ پالیسیز کے تحت آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ جہاں پاکستان میں سٹارٹ اپس فیل ہونے کی خبریں آرہی ہیں وہیں تانیہ ایدریس کے سٹارٹ اپ ڈی بینک کو 1.7 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ہے۔ ’اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں معاشی بحران کے باوجود سرمایہ کاری کا رجحان پھر بھی نہیں رک رہا۔ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان پر اب بھی بہت یقین ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہماری نئی نسل میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث مختلف قسم کی ایپس پر کافی انحصار بڑھ گیا ہے۔ مستقبل قریب میں ٹیکنالوجی کے ذریعے پرابلم سالونگ کا رجحان بڑھتا چلا جائے گیا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں سٹارٹ اپس کے لیے پھلنے پھولنے کے مواقع کبھی کم نہیں ہوں گے۔‘