افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافاتی علاقے خیر خانہ میں بدھ کی شام ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک جبکہ 33 کے قریب زخمی ہوگئے۔
یہ دھماکا اس وقت ہوا، جب مسجد میں نماز ادا کی جارہی تھی۔ طالبان کے ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا ہے کہ دھماکے کا ہدف مشہور مذہبی سکالر مولوی امیر محمد کابلی تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کچھ طالب علموں کے ساتھ ہلاک ہوئے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق گذشتہ تین ماہ کے دوران افغان دارالحکومت میں تین ممتاز مذہبی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور دیگر صوبوں میں بھی قتل کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صدیقیہ مسجد میں ہونے والے حملے کے زخمیوں میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔
اے ایف پی نے کابل پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدھ کی رات ہونے والے اس حملے میں اب تک 21 افراد جان سے جا چکے ہیں۔
کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’دھماکہ مسجد میں نصب بم کے پھٹنے سے ہوا۔‘ اس سے قبل اسے خودکش حملہ رپورٹ کیا گیا تھا۔
کابل میں موجود سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک ٹویٹ میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔
حامد کرزی رئیس جمهور پیشبن #افغانستان انفجار در مسجد صدیقیه واقع ناحیه هفدهم شهر #کابل را که حین ادای نماز شام بوقوع پیوست و بشمول امام مسجد باعث شهادت و جراحت تعدادی از نماز گزاران گردید به شدیدترین الفاظ تقبیح نموده این جنایت ضد بشری را در تضاد با تمام ارزشهای انسانی و…
— Hamid Karzai (@KarzaiH) August 18, 2022
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اٹلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایمرجنسی‘، جو کابل کے ایک ہسپتال کی منتظم ہے، نے 27 زخمیوں کی ہسپتال آمد کی تصدیق کی، جنہیں یا تو شیل لگے یا ان کے جسموں پر جلنے کے نشانات تھے۔ ایمرجنسی نے بتایا کہ زخمیوں میں پانچ بچے بھی تھے۔
بعد میں ایک ٹویٹ میں ایمرجنسی نے بتایا کہ زخمی بچوں میں ایک کی عمر سات سال تھی۔
ایمرجنسی کے افغانستان میں سربراہ سٹیفنی سوزا نے روئٹرز کو بتایا: ’ہمارے پاس دو لاشیں آئی تھیں جبکہ ایک شدید زخمی شخص کی موت دوران علاج واقع ہوئی۔‘
سٹیفنی نے بتایا کہ اگست میں اب تک ہسپتال میں 80 زخمیوں کا علاج کیا جا چکا ہے، جو مختلف واقعات میں زخمی ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے پی نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ’خود کش حملے کا نشانہ خیر خانہ کے ایک رہائشی ملا امیر محمد کابلی تھے۔‘
عینی شاہد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ معلومات دیں کیوں کہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی اور طالبان انتظامیہ نے بھی کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا۔
گذشتہ چند ہفتوں سے افغانستان میں مساجد، مدارس اور مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 11 اگست کو ایک خود کش بمبار نے مذہبی رہنما رحیم اللہ حقانی کے مدرسے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ مارے گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
جب سے طالبان نے ملک کا کنٹرول حاصل کیا ہے افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں کمی آئی ہے، تاہم داعش نے اقلیتوں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور اس تنظیم نے اب تک افغانستان میں سکھ، شیعہ اور صوفی برادریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے داعش کو شکست دے دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروہ طالبان کے لیے بنیادی خطرہ ہے۔
طالبان نے اپنے شیعہ کمانڈر کو قتل کر دیا
خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ طالبان نے اپنے ایک ساتھی کو قتل کیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اقلیتی شیعہ ہزارہ برادری سے طالبان کے پہلے کمانڈر تھے۔
روئٹرز کے مطابق حکام نے شیعہ ہزارہ برادری کے سابق طالبان رہنما کے قتل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت کے باغی تھے۔
وزارت دفاع کے مطابق مولوی مہدی کو ایران سے متصل سرحدی علاقے میں طالبان نے اس وقت قتل کیا جب وہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
کچھ عرصہ قبل مولوی مہدی کو کمانڈر تعینات کیا گیا تھا تو اسے اقلیتوں کے حوالے سے طالبان کی ذہنیت تبدیل ہونے کا اشارہ سمجھا جا رہا تھا۔
طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مہدی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے اور طالبان نے حکومت بنانے کے بعد مہدی کو وسطی صوبے میں خفیہ ایجنسی کا سربراہ تعینات کیا تھا۔
وزارت دفاع نے بدھ کو جاری بیان میں مہدی کو شمالی صوبے سرے پل کے ’باغیوں کا رہنما‘ قرار دیا ہے۔
طالبان ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ مہدی طالبان سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے بغاوت کی تھی۔
وزارت دفاع کے مطابق انہیں افغان صوبے ہرات میں قتل کیا گیا ہے، جو ایران کی سرحد سے متصل ہے۔
روئٹرز کو مہدی کے کسی ذرائع تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔