کیا شمالی علاقوں کے لوگ واقعی فحاشی کے ذمہ دار ہیں؟

ان پر فحاشی کا الزام اس لیے بھی درست ہے کہ یہ لوگ اپنی بیٹیوں کی ذہانت پر شک نہیں کرتے، بہنوں کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کرتے، بچیوں کی گواہی پوری مانتے ہیں اور وراثت میں حصہ بھی پورا دیتے ہیں۔

اپنے لاشعور کے پردے پر شمال کی جو تصویر میں نے کھینچی تھی اس کے سارے رنگ میں نے اُن  شمالیوں سے لیے تھے جو کراچی میں بستے تھے(اے ایف پی)

میرے جاننے والے یہ جان کر حیرت زدہ تھے کہ میں پہلی بار گلگت آیا ہوں۔ اس کی وجہ میرے وہ جذباتی خیالات ہیں جن کا اظہار میری گفتگو یا تحریر میں کہیں نہ کہیں ہوجاتا ہے۔

آغا خان ہائر سکینڈری سکول کے پرنسپل ظفر اقبال صاحب تو سکتے میں ہی آ گئے۔ بولے، تو یہ ساری محبت زبانی کلامی تھی؟ اس سفر میں جو کچھ میں نے دیکھا اُ س میں کچھ بھی خلافِ توقع نہیں تھا۔ ہاں اِس حوالے سے سب کچھ بہت دلچسپ تھا کہ جس کا تصور میں نے شمال سے متعلق کیا تھا، وہ سب میں اب اپنی آنکھ سے دیکھ بھی رہا تھا۔

مجھے بچپن میں جو دو، چار موٹی موٹی باتیں تعلیم کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ شمال کے لوگ ملک میں فحاشی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بچوں کا ضمیر گھی کے ایک کنستر کے عوض خریدتے ہیں پھر انہیں گندی گندی باتیں پڑھاتے ہیں۔

ناخواندہ بزرگوں کی آنکھوں پر دنیا کی چمک پھونکتے ہیں اور پھر انہیں عبادت گاہوں سے سیدھا میخانے لے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے میں امت کے اُن جوانوں میں سے ہوں جو احتیاطا گمراہی کو خود اپنی آنکھ سے ایک بار ضرور دیکھ لیتے ہیں۔ سو میں نے دیکھا!

اپنے لاشعور کے پردے پر شمال کی جو تصویر میں نے کھینچی تھی اس کے سارے رنگ میں نے اُن  شمالیوں سے لیے تھے جو کراچی میں بستے تھے۔ ان میں سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ یہ ہمیشہ نظم وضبط میں رہتے تھے۔ شُمال سے نئے آنے والوں کا درد اِن کے جگر میں ہوتا تھا۔

کسی کو داخلے کی داشواریاں ہوتیں، نوکری کا مسئلہ ہوتا یا کوئی قانونی پیچیدگی ہوتی تو پوری کمیونٹی حاضر باش ہوتی تھی۔ نوجوانوں، خواتین، سٹوڈنٹس، اساتذہ ، وکلا ہر ایک کی اپنی اپنی تنظیمیں تھیں۔

غیرنصابی سرگرمیوں یعنی صلاحیتوں کی آزمائشوں، شعر و ادب کی محفلوں اور رقص وسرود کی سنگتوں کے لیے الگ الگ حلقے تھے۔ جماعت خانے کے نظم وضبط کے لیے بھی نوجوانوں کا اپنا ایک سکواڈ موجود تھا۔

ان کے جرائم کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اپنی ناراضی کے اظہار کے لیے کبھی کوئی سڑک بلاک نہیں کرتے۔ اپنی طاقت منوانے کے لیے ایمبولنس کا راستہ نہیں روکتے۔ ٹائر جلا کر اپنی عزم وہمت کا ثبوت نہیں دیتے۔ سُست اور کاہل اتنے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر کے ناجائز استعمال کے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتے۔

اِس درجہ لاپرواہ ہیں کہ ابھی تک زمین پر کوئی چلتا پھرتا حریف تخلیق نہیں کرسکے۔ سمجھ نہیں آتی کہ فتوے لگائے بغیر یہ زندگی کا مزا کیسے لے رہے ہیں، کسی آنکھ میں جوتوں سمیت اترے بغیر یہ لوگ اِس جہانِ تگ وتاز کے معانی کو کیسے سمجھ پاتے ہوں گے۔  

روزِ حشر یہ اپنی اِس کوتاہی کا کیا جواب دیں گے کہ یہ اپنی عبادت گاہوں میں جوتے ایک قطار میں بالکل سیدھے رکھتے ہیں، بجائے اس کے کہ ان کے  خطیب لوگوں کو نفرت، تقسیم اور تفرقے کی اہمیت بتائیں، الٹا انہیں برادشت، تحمل اور رواداری کا سبق سکھا رہے ہوتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ ان کی عبادت گاہوں میں حاجت خانوں کی بو بھی رچی بسی نہیں ہوتی۔ جمعے کے دن یہ کب اپنے عبادت گاہ میں آئے، کب چلے گئے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ چلو یہ سب تو قابلِ برداشت ہے مگر یہ کیسے برداشت کرلیا جائے کہ عبادت خانے سے اس درجہ بد نظمی کے ساتھ نکلتے ہیں کہ ٹریفک متاثر ہوتی ہے اور نہ راہگیروں کو پریشانی ہوتی ہے۔ اس عبادت کا بھی کیا مزا جس کی انجام دہی آپ میں ایک طرح کا احساسِ برتری پیدا نہ کرسکے۔  

یہ اتنے دین بیزار ہیں کہ جب روزہ رکھتے ہیں تو خدا پر احسان ہی نہیں جتلاتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ روزہ رکھ کر یہ لوگوں سے کہیں، اوئے تمیز سے بات کر میں روزے سے ہوں۔ 

اِس کے برعکس یہ سوچتے ہیں کہ چونکہ میں روزے سے ہوں تو مجھ پر لازم ہے کہ میں تمیز سے بات کروں۔ انتہا دیکھیے کہ ان میں جو لوگ روزے سے ہوتے ہیں وہ  دن دیہاڑے کھانے والوں کا احترام  بھی کرتے ہیں۔ لاحول ولا۔ خدا جانے یہ کیسے روزے ہوتے ہوں گے جو لوگوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر متاثر ہی نہیں ہوتے۔

آخر وہ بھی کوئی روزہ ہوا کہ آپ نے رکھا اور کام چوری کا جذبہ دل میں پیدا نہ ہوا۔ تبھی تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ روزے رکھتے ہی نہیں ہیں۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں، جب آپ کام چوری نہیں کرتے، لڑتے بھڑتے نہیں، بات بے بات آپ کا متھا نہیں گھومتا اور کسی کو کھاتا پیتا دیکھ کر میٹر شارٹ نہیں ہوتا تو کیسے پتہ چلے کہ آپ روزے بھی رکھتے ہیں۔

میں آپ کو کیا کیا بتاؤں کیا کیا گنواؤں۔ یہ ظالم عید الاضحی پر قربانی کرتے ہیں تو سرعام سڑک پر گائے، بکری، دنبہ حلال نہیں کرتے۔ اِس سے بڑی ملک دشمنی کیا ہوگی کہ جانوروں کی آلائشیں باہر راستوں میں نہیں پھینکتے۔ جانوروں کا خون نالیوں میں اس صفائی سے بہا دیتے ہیں کہ سرکاری اہلکاروں کو خدمت کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔

خدا کو حاضر ناظر جان کر بتائیے کہ یہ کوئی قربانی ہے بھلا؟ مطلب حیران ہوں کہ گندگی پھیلائے بغیر آپ کیسے ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ نے ایک عظیم فریضہ سر انجام دیا ہے۔ ویسے ہی تو نہیں کہتے کہ یہ لوگ قربانی کرتے ہی نہیں ہیں۔ ظاہر ہے جب گندگی نہیں پھیلاؤ گے اور فضاؤں میں تعفن نہیں گھولو گے تو دوسروں کو پتہ کیسے   چلے گا کہ تم قربانی بھی کرتے ہو؟

ان پر فحاشی کا الزام اس لیے بھی درست ہے کہ یہ لوگ اپنی بیٹیوں کی ذہانت پر شک نہیں کرتے۔ بہنوں کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کرتے۔ اتنے کافر ہیں کہ بچیوں کی گواہی پوری مانتے ہیں اور وراثت میں حصہ بھی پورا دیتے ہیں۔

وسائل کتنے ہی کم ہوں بیٹی کو لازمی تعلیم دیتے ہیں۔ گلگت شہر سے ہنزہ کی طرف جائیں تو جابجا پھول سی بچیاں بستہ لٹکائے ہنستے کھیلتی جارہی ہوں گی۔ ساتھ ہی یہ منظر بھی کہیں دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ مرد مزدروں کے ساتھ خواتین لیبر بھی لکڑیاں کاٹ رہی ہیں، دیوار میں چھید کررہی ہیں اور کیلیں ٹھونک رہی ہیں۔

گاڑی کسی گاؤں سے نکل رہی ہوگی اور خاتون ڈرائیو کررہی ہوگی۔ لڑکیوں کے سکول کی پرنسپل میمونہ عباس میری دوست ہیں، ان سے میں نے پوچھا ہفتے کا دن اور سکول کھلے ہوئے ہیں، سب خیر تو ہے؟ کہتی ہیں، ویسے ہی تو ہم نوے فیصد شرح خواندگی نہیں دیتے۔ اب یہ سب تو خواتین کو بااختیار کرنے والی حرکتیں ہیں جس کے نتیجے میں ’فحاشیاں‘ نہ پھیلیں تو کیا رقبے پھیلیں گے؟  

گذشتہ ہفتے گلگت کے ہوائی اڈے پر اترا تو دوسرے شہروں کی طرح یہاں بھی لوگ ’جی گاڑی چاہیے صاحب؟‘ جیسے بلاوے دے رہے تھے۔ مگر مجھے یہ لوگ بالکل بھی پسند نہیں آئے۔ یہ اتنے نالائق ہیں کہ جب آپ گاڑی والے کو ایک بار کہتےہیں کہ گاڑی نہیں چاہیے تو دوبارہ تنگ ہی نہیں کرتا۔ حالانکہ انہیں الجھنا چاہیے، باربار اصرار کرنا چاہیے یہاں تک کہ آپ کسی سے فون پر بات کررہے ہوں تب بھی انہیں بیچ میں چونچ مارکر کہنا چاہیے کہ آجاؤ بھائی جان مناسب  کرایہ کردوں گا۔

زندگی کا مزا تو یہ ہے کہ آپ تیوریاں چڑھا کر کہیں ’نہیں چاہیے نا یارگاڑی‘ تو آگے سے ’اچھا آپ بتائیں کتنے دیں گے‘ کی صورت میں آنے والا جواب آپ کو بے بس کردے۔ میں نیو ماڈل ٹویوٹا کرولا میں ہوائی اڈے سے ہوٹل پہنچا تو ڈرائیور نے 250 روپے بتائے۔ پہلا خیال یہی آیا کہ یہ ناہنجار کوئی پاگل واگل تو نہیں ہوگیا۔ کیسا احمق انسان ہے اِس کو کسی نے یہ تک بھی نہیں سکھایا کہ دوسرے شہر سے آنے والوں کو لُوٹتے کس طرح  ہیں؟

میں این ایل آئی مارکیٹ گیا تو چوک پر لگی ہوئی بینچوں پر بیٹھ گیا۔ ایک بابا جی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ انہوں نے پوچھا، لاہور سے آرہے ہو؟ یہ یقینا اس لیے پوچھا کہ میرا رنگ بھی کسی زود رنج کے دل کی طرح جلا ہوا ہے۔ بابا جی شمال کی تاریخ کے انسائیکلوپیڈیا تھے۔ کتنے قافلے ان کوہساروں پر سے گزرے ہیں، بدھ ازم کا ستارہ کس راستے سے یہاں آیا تھا اور کن راہوں سے ہوتا ہوا کس جانب کو غروب ہوا، پولو میچ کے شرائط و ضوابط کیا ہوتے ہیں، گلگت میں آبادی کا مسلکی تناسب کتنا ہے اور علاقائی تناسب کیا ہے، یاسین کے لوگ کتنا پڑھتے ہیں،غذر کے لوگ زمین سے کتنے جڑے ہوئے ہیں، ہنزہ کی چیری کیسی ہوتی ہے اور وہ انگور کا عرق کیسے نچوڑتے ہیں، پُنیال کے دیسی  ساختہ پانیوں کو فضیلت کیوں حاصل ہے، چلاس اور دیامر کو کس کی ہائے لگی ہے اور اِ س این ایل آئی مارکیٹ میں کاشغر کے لوگ کب، کیوں اور کیسے آئے اور یہ مقامی رنگ میں کیسے رنگ گئے۔ ۔ ۔  بابا جی نے ہنستے کھیلتے یہ سب کچھ بتا دیا۔

بابا جی سے میں نے کہا، جیکٹ کہاں سے ملے گی؟ باباجی جو بینچ پر آلتی پالتی مارکر شمسی توانائی کی نیم ٹھنڈی کرنیں جذب کررہے تھے، پاؤں اتارے، چپل پہنی اور مجھے مارکیٹ کی بالائی منزل پر لے گئے۔

ان کے داماد کی یہاں دکان تھی۔ میں نے ایک جیکٹ پسند کی۔ انتہائی مشکل زبان میں داماد اور سُسر نے کچھ کھسر پھسر کی جس کا مفہوم یہ نکلا کہ جیکٹ مجھے فری میں تھما دی گئی۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ کچھ تو پیسے لیے جائیں مگر بابا جی مان کر نہ دیے۔ بے چارے، بے وقوف لوگ!

وقارملک کے گھر سے نکلے تو میں نے کہا، تالا تو لگا لو۔ ہاتھ سے پکڑ کے کہتا ہے، ابے چل یار تالے کے بچے۔ میں حریان نالے پریشان۔ کیفے تک پیدل چلتے چلتے اس نے کہا، کسی ایک بھی گھر میں یہاں تالا لگا ہوا ملے تو مجھے بھی دکھا دینا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یعنی اِس زندگانی پر وقار ملک کو اِترانا چاہیے؟ عشرت تو بخدا یہ ہے کہ آپ نے آتے ہوئے چھ تالے باہر سے، چار تالے اندر سے لگائے ہوں اور پھر بھی پڑوسیوں کو فون کرکے پوچھنا پڑرہا ہو کہ سب امن شانتی ہے نا بھیا۔ اور یہاں؟ یہاں تو کنڈی نہ کھڑکاؤ راجا سیدھا اندر آؤ راجا والا ماحول لگا پڑا ہے!

چلتے چلتے وقار ایک دکان میں داخل ہوا۔ دکاندار موجود نہیں تھا۔ وقار نے مطلوبہ منشیات اٹھائی، کاؤنٹر پر پیسے رکھے اور چل دیا۔ دکان سے نکلتے نکلتے یہی حرکت میں نے بالکل سامنے کی دکان میں ایک شخص کو کرتے دیکھا۔

اب یہ کیا ہے؟ جواب آیا، بس یہاں ایسا ہی ہے بابو۔ سڑک صاف، چوری کا خطرہ نہیں، فتوی نہیں، الزام نہیں، عقیدے اور صنف کا امتیاز نہیں، جنسی ہراسانی نہیں، دھکم پیل اور دھینگا مشتی نہیں۔ میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ اتنی صفائی ستھرائی اور امن و امان؟ میں کیا میرے اس دوست کا دم نہیں گھٹتا ہوگا؟

وزیر جان مست الست آدمی ہے اور عمران الہی سے ہدایت چھن گئی ہے۔ ظالموں نے نپور سے آگے  لے جا کر بدھا کا ایک مجسمہ دکھا دیا۔ دور سے بدھا کو دیکھ کرآس پاس کی بستیوں میں رہنے والی ماؤں کو رویا۔ یہ کیسی مائیں ہیں کہ اب تک انہوں نے غزنوی کا کوئی فرزند ہی نہیں جنا؟

قریب جا کر اندازہ ہوا کہ مجسمہ اس قدر بلندی پر ہے کہ غزنوی کے گھوڑوں کی رسائی وہاں تک ممکن نہیں۔ گوکہ علامہ کے شاہین ستاروں پر بھی بستر لگانا جانتے ہیں مگر یہ تب کی باتیں ہیں جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب تو بس ڈبوں کا دودھ ہے اور نت نئے محصولات کے بعد وہ بھی نہیں ہے۔

ہم  ’بروشایور‘ نامی روایتی ریستوران  میں داخل ہوئے تو ایک ادھڑا گریبان  شخص  کونے میں بیٹھا تھا ۔ میں نے پوچھا، بروشا یور کا مطلب کیا ہے۔ خدا کی پناہ، لفظ ’بروشا‘ کو اٹھاکریہ شخص  سنسکرت کی طرف گیا، وہاں سے فارسی کی طرف آیا، تبت و افغانستان اور جانے کس کس ناگمان  سے گھومتا ہوا واپس آیا تو بتایا کہ ’بُروشا‘ کی نسبت بروشسکی سے ہے اور ’یُور‘  دانہ پانی کو کہتے ہیں۔ مجھے علم نہیں تھا جن سے میں نے سوال کیا ہے وہ وزیر شفیع ہیں۔ ذہین قانون دان ہے اور زبان وبیان کا دھنی آدمی ہے۔

ہم نے روایتی خوراک میں غلماندی، چھِربت اور لاژک آرڈر کیا۔ جب تک کھانا آتا وزیر شفیع، وزیر جان اور عمران الہی  نے چِھربت نامی ڈش میں لفظ’چھرِ‘ کی الگ اور’بت‘ کی الگ تفصیل بیان کردی۔ لاژک کا مقام ومرتبہ بھی واضح ہوگیا اور غلماندی کا ثقافتی پس منظر بھی سامنے آگیا۔

اس عرصے میں یہ بھی جان گئے کہ شینا کی بولی میں کتنے رنگ ہیں، بروشسکی گوتم بدھ کی طرح تنہائی پسند کیوں ہے، خووار نے اچھا خاصا سنسکرت نما سکرپٹ چھوڑ کر عربی رسم الخط کو گود کیوں لیا۔ یہ سب سن کر یہی خیال آیا کہ کیوں، آخر اتنا علم کیوں؟

آپ جہالت جیسی ایک بڑی نعمت کی قدر کیوں نہیں کرلیتے۔ کیا شینا اور بروشسکی لگا رکھا ہے گولی مارو زبان کو، بحیرہ عرب میں غوطے لگائے یا صحیفوں میں رہا کرے ہما ری بلا جانے۔ کرنے کا کام تو یہ ہے کہ زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی زبانیں کھینچی جائیں اور قومیت کی بنیاد پر آنکھیں نوچی جائیں۔     

دو دن میں نے ایک ٹیکسی میں سفر کیا۔ آخری دن ہوٹل چھوڑنے سے پہلے کونوداس میں ڈرائیور نے گاڑی روکی۔ بازار گیا، واپس آیا تو چیری کے دو ڈبے ہاتھ میں تھے۔ ایک ڈبہ مجھے دیا اور دوسرے کے لیے اس نے کہا یہ ایک ڈاکٹر صاحب کو لاہور بھجوانا ہے۔ چار سال پہلے یہاں آئے تھے، میرے بچے کے لیے ایک نسخہ انہوں نے لکھا تھا، بچہ ٹھیک ہوگیا تھا۔

اگلے دن میں اسلام آباد واپس پہنچا، گھر کے لیے راستے میں تھا کہ اُس کا فون آیا۔ آپ خیریت سے پہنچ گئے بھائی جان؟ جی میں پہنچ گیا! اپنا خیال رکھنا بھائی جان! ۔ ۔ ۔ میں صدقے! میں قربان!

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر